پروین طاہر کی نظم

    التباس

    ہمیں کس نے دھکیلا اس طرف ان نور برساتی ہوئی نیلی فضاؤں سے عنابی سرخ پھولوں سے اٹی مخمل ردائی سر زمینوں سے کنار آب جو سے وہ جہاں سیال چاندی بہہ رہی تھی ہمیں کس نے جگایا گنگناتے خواب سے جس میں کسی لحن مسلسل کی حسیں تکرار سے میٹھے مدھر نغمے ابھرتے تھے وہ جادو سی جکڑ قدموں میں ...

    مزید پڑھیے

    کہ میں اندھے خلاؤں سے بنی پاتال کا مقسوم ٹھہری

    مگر اے روشنی اے کائناتی روشنی ان سورجوں تاروں زمینوں کہکشاؤں کے لیے دل میں ترا نور محبت ایک جیسا ہے مجھے پاتال سے کھینچا مرا میلا بدن دھویا الوہی گھیر میں لے کر مری ان خشک جھیلوں کو مقدس آنسوؤں سے پھر شناسا کر دیا اے روشنی ان خشک جھیلوں کے کناروں پر تری ہلکی سی شبنم سے ترے شیتل ...

    مزید پڑھیے

    سفر ندیا کے پانی کو ودیعت ہے

    سمندر سر جھکائے با نہیں پھیلائے ہوئے چپ چاپ بیٹھا ہے ابھی کچھ دیر ہی پہلے تلاطم خیز موجیں تھیں زمانہ اس کی ٹھوکر پر سمندر سر جھکائے با نہیں پھیلائے ہوئے چپ چاپ بیٹھا ہے تھکا ماندا کسی ہارے کھلاڑی کی طرح لیکن اچانک ہی کسی مانوس خوشبو نے اسے چونکا دیا ہے سامنے معصوم ندیا سانس ...

    مزید پڑھیے

    آواز سے باہر

    کئی صدیوں سے آوازوں نے روحوں کو بھنبھوڑا ہے سجل احساس کی رگ سے لہو کا آخری قطرہ قرینے سے نچوڑا ہے مرے اگلوں کو مجھ کو گم شدہ خوابوں کی منزل پر بنا آواز جانا ہے صدا کے معبدوں کی تیرگی کو چھوڑ کر پیچھے خلاؤں میں نیا رستہ بنانا ہے

    مزید پڑھیے

    ہم تری تکذیب کر سکتے نہیں

    اے زمانے ہم تری تکذیب کر سکتے نہیں تو نے ہٹائے پردہ ہائے خوش نما وہ جن کے پیچھے چھپ کے بیٹھی زندگی پہچان بھی پاتے تو کیسے اے زمانے ہم تری تکذیب کر سکتے نہیں کانٹوں پہ تو نے جب گھسیٹا تو سبک پھولوں میں تلنے کی کتابی خواہشوں سے جان چھوٹی اے زمانے تو نے ہم کو تجربہ گاہ نفی میں لا کے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نادان نظم

    حبیب جاں تم اگر وبا کے دنوں میں آئے تو بصد عقیدت و محبت تمہارے ہاتھ چوموں گی کیونکہ یہ میرے مسیحا کے ہاتھ ہیں تمہاری چادر کو اپنے ہاتھوں سے تہہ کر کے اپنے سرہانے رکھوں گی کہ اس بکل کی حرارت مجھ پر کشف کے در کھولتی ہے تمہارے جوتوں کو قرینے سے جوڑ کر پلنگ کے پاس رکھوں گی تمہارے ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    لا تعین

    عجب پیڑ تھے وہ کہ چھتنار چھایا بھی جھلسا رہی تھی وہ کیا سرزمیں تھی جو پیڑوں کے نیچے سے کھسکے چلے جا رہی تھی بہت بے تعین سی سمتیں بجھی تھیں نگاہوں کے آگے خلاؤں سی ویراں وہ کوئی فضا تھی کسی حد امکاں کا آغاز تھا یا کسی بے زمانی کی وہ انتہا تھی

    مزید پڑھیے

    آخری سمت میں بچھی بساط

    ہمیں ہر کھیل میں ہر بات پر اے مات کے خواہاں کبھی کھینچیں گے ہم باگیں جنونی سر پھری اندھی ہواؤں کی اڑائیں گے فلک پر چاند تاروں سے بنے رتھ کو پھر آئیں گے تجھے ہم راہ کرنے سرمئی دھندلے جزیروں سے سنہری آس رنگی سر زمیں تک نئے مہروں سے پھر اپنا پرانا کھیل کھلیں گے تری ہر مات کی ہر چال ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ کی ٹھوکر

    نیند میں چلتے چلتے یک دم گر جاتے ہیں اودے پھول شٹالے کے بیر بہوٹی ساون کی دور افق پر ارض و سما کو جوڑنے والی مدھم لائن اور اسے چھونے کی دھن میں ننھے نرم گلابی پاؤں سانول شام پڑے کا منظر پھیلا چاند سمندر سارا بچپن گر جاتا ہے دھوپ کی ٹھوکر رہ جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    کہاں

    کہاں جا رہے ہو سیہ روشنی کی چکا چوند دھارا کے دوجے کنارے پہ اندھا کنواں اک قدم فاصلہ کہاں جی رہے ہو کھلی آنکھ کے دل نشیں خواب کی ایک تصویر میں جس کی تعبیر ازلوں سے معدوم ہے کہاں ہنس رہے ہو پس قہقہہ آڈیبل رینج سے بھی بہت دور نیچے کراہوں کی لہریں فنا ہو رہی ہیں کہاں دیکھتے ہو ستاروں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2