سفر ندیا کے پانی کو ودیعت ہے

سمندر سر جھکائے با نہیں پھیلائے ہوئے
چپ چاپ بیٹھا ہے
ابھی کچھ دیر ہی پہلے تلاطم خیز موجیں تھیں
زمانہ اس کی ٹھوکر پر


سمندر سر جھکائے با نہیں پھیلائے ہوئے
چپ چاپ بیٹھا ہے
تھکا ماندا کسی ہارے کھلاڑی کی طرح
لیکن اچانک ہی کسی مانوس خوشبو نے
اسے چونکا دیا ہے
سامنے معصوم ندیا
سانس روکے دم بخود حیراں
سمندر کی اداسی دیکھتی ہے


مری اوما چلی آؤ
پرانی ریت صدیوں کی
ندی ساگر سے ملتی ہے
سدا ملتی رہے گی
مری عظمت مری وسعت
کہ جس پر ناز تھا مجھ کو
وہ بس اک التباس وقت تھا
اب تو مرے پانی میں گدلاہٹ ہے
مرے ذائقے میں کھارے پن کی
کاٹ ہے ایسی
کہ سیرابی کسی بھی تشنہ لب کی ہو نہیں سکتی
فقط تو ہی تو پاکیزہ
ترے بہتے ہوئے پانی میں وہ تاثیر ہے
جو سات قلزم کی کثافت کو مٹا ڈالے
مری اوما زمانہ جھوٹ ہے
لیکن تو سچائی
یہ رشتے آنکھ کا دھوکا
مگر تو چشم بینا اور بینائی


مہا ساگر
تجھ تو یاد ہے سچے زمانوں سے
مرا وہ گنگناتا راستہ
سیدھا تمہاری اور آتا تھا
مگر تو کس قدر مغرور تھا
تیری رعونت نے
فقط اک ناں کے بوتے پر
مرے الھڑ بہاؤ کو وہیں پر روک ڈالا تھا
میں ندیا تھی
سفر ندیا کے پانی کی ودیعت ہے
مجھے بہنا تھا ہر صورت کسی بھی طور چلنا تھا
مدور گھاٹیوں دلبر زمینوں اور میدانوں نے
فیاضی سے مجھ کو راستہ بخشا


مہا ساگر
مجھے اب لوٹ جانا ہے
حسیں سورج کی کرنوں سے
ملن کر کے ابھی بادل بنانا ہے
مجھے چٹیل زمینوں گرم میدانوں کو
بھوری گھاٹیوں کو
سات رنگی پینگ کا
احسان لوٹانا ہے
بن جل کے جو دھرتی ہے
وہاں سبز بچھانا ہے