کہ میں اندھے خلاؤں سے بنی پاتال کا مقسوم ٹھہری
مگر اے روشنی
اے کائناتی روشنی
ان سورجوں تاروں زمینوں
کہکشاؤں کے لیے دل میں
ترا نور محبت ایک جیسا ہے
مجھے پاتال سے کھینچا
مرا میلا بدن دھویا
الوہی گھیر میں لے کر
مری ان خشک جھیلوں کو
مقدس آنسوؤں سے
پھر شناسا کر دیا
اے روشنی
ان خشک جھیلوں کے کناروں پر
تری ہلکی سی شبنم سے
ترے شیتل جھپاکے میں چھپی
میٹھی حرارت سے
میں سرما کے گلابوں کی
کوئی بے انت کھیتی خود اگا لوں گی
کہ مجھ میں سورجوں کے ظلم سہنے کی
سکت باقی نہیں