التباس
ہمیں کس نے دھکیلا اس طرف
ان نور برساتی ہوئی نیلی فضاؤں سے
عنابی سرخ پھولوں سے اٹی
مخمل ردائی سر زمینوں سے
کنار آب جو سے
وہ جہاں سیال چاندی بہہ رہی تھی
ہمیں کس نے جگایا
گنگناتے خواب سے
جس میں کسی لحن مسلسل کی
حسیں تکرار سے میٹھے مدھر نغمے ابھرتے تھے
وہ جادو سی جکڑ قدموں میں آنکھوں میں
سماعت میں
ہمیں کس نے ہٹایا فیض پرور ریگ زاروں سے
وہ جن کی ریت پر من کی فروزاں روشنی سے
ان سرابوں کی چھبی بنتی
وہ جن کی تشنگی سے روح تک سیراب رہتی تھی
ہمیں کس نے