Parveen Fana Syed

پروین فنا سید

پروین فنا سید کی غزل

    ہر سمت سکوت بولتا ہے

    ہر سمت سکوت بولتا ہے یہ کون سے جرم کی سزا ہے ہیں پاؤں لہولہان لیکن منزل کا پتہ تو مل گیا ہے اب لائے ہو مژدۂ بہاراں جب پھول کا رنگ اڑ چکا ہے زخموں کے دیے کی لو میں رقصاں ارباب جنوں کا رت جگا ہے اب تیرے سوا کسے پکاروں تو میرے وجود کی صدا ہے

    مزید پڑھیے

    دل جلایا تری خوشی کے لیے

    دل جلایا تری خوشی کے لیے یا خود اپنی ہی آگہی کے لیے ہاتھ پر رکھ کے اپنی روح تپاں ہم چلے اپنی رہبری کے لیے نور کی محفلوں میں رہتے ہیں جو ترستے ہیں روشنی کے لیے کتنے آلام سہہ گئے ہم لوگ ایک بے نام سی ہنسی کے لیے آب حیواں بھی گر ملے تو نہ لیں اپنے معیار تشنگی کے لیے پھر کوئی قہر ...

    مزید پڑھیے

    زہر شیریں ہے سچ پیے جاؤ

    زہر شیریں ہے سچ پیے جاؤ ہمدمو مر کے بھی جیے جاؤ امتحان وفا ہمیں منظور انتہائے ستم کیے جاؤ کھل نہ جائے فریب چارہ گری زخم ہر حال میں سیے جاؤ راکھ کا ڈھیر ہیں مہ و انجم راکھ میں جستجو کیے جاؤ رہروی کا یہی تقاضا ہے راہزن کو دعا دیے جاؤ

    مزید پڑھیے

    کیا غضب تو نے اے بہار کیا

    کیا غضب تو نے اے بہار کیا پتی پتی کو بے قرار کیا اب تو سچ بولنے کی رسم نہیں کس نے پھر اہتمام دار کیا آتش درد میں کمی نہ ہوئی لاکھ آنکھوں کو اشک بار کیا روشنی کی تلاش میں ہم نے بارہا ظلمتوں سے پیار کیا موج در موج تھے دکھوں کے بھنور ہم نے تنہا سبھی کو پار کیا جب بنایا تھا چاند ...

    مزید پڑھیے

    اجڑا ہوا شہر پھر بساؤں

    اجڑا ہوا شہر پھر بساؤں یہ حوصلہ اب کہاں سے لاؤں ٹوٹے ہوئے آئنے میں خود کو میں دیکھ جو لوں تو ڈر نہ جاؤں زخموں سے بھرے چمن میں رہ کر پھولوں سے مہکتے گیت گاؤں اے کاش وفا کی روشنی سے امید کا اک دیا جلاؤں تجدید وفا کے آسرے پر زخموں کی چبھن بھی بھول جاؤں اپنا ہی لہو روش روش پر اے ...

    مزید پڑھیے

    شعلۂ دل بجھا کے دیکھ لیا

    شعلۂ دل بجھا کے دیکھ لیا آرزو کو مٹا کے دیکھ لیا اپنے ہاتھوں جسے سنوارا تھا وہ چمن بھی لٹا کے دیکھ لیا دل کا جو زخم تھا چراغ بنا آنسوؤں کو چھپا کے دیکھ لیا چارہ گر تیرے امتحاں کے لیے زخم پر زخم کھا کے دیکھ لیا مسکرائے تو ساتھ تھی دنیا اشک تنہا بہا کے دیکھ لیا

    مزید پڑھیے

    کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا

    کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا ڈوب جاتا بھی تو موجوں نے ابھارا ہوتا ہم تو ساحل کا تصور بھی مٹا سکتے تھے لب ساحل سے جو ہلکا سا اشارا ہوتا تم ہی واقف نہ تھے آداب جفا سے ورنہ ہم نے ہر ظلم کو ہنس ہنس کے سہارا ہوتا غم تو خیر اپنا مقدر ہے سو اس کا کیا ذکر زہر بھی ہم کو بصد شوق گوارا ...

    مزید پڑھیے

    اٹھی تھیں آندھیاں جن کو بجھانے

    اٹھی تھیں آندھیاں جن کو بجھانے وہ شمعیں اور بھڑکیں اس بہانے نقابیں بجلیوں کی رخ پہ ڈالے چمن والوں نے لوٹے آشیانے یہ کیوں وحشت سے لپکا دست گلچیں کلی شاید لگی تھی کچھ بتانے ابھی موہوم ہے سجدے کا مفہوم جھکا پھر کس لیے سر کون جانے شعور زندگی کی ڈھال لے کر چلے ہم موت سے آنکھیں ...

    مزید پڑھیے

    اک اک کو عتاب بانٹتے ہو

    اک اک کو عتاب بانٹتے ہو کس طرح کے خواب بانٹتے ہو ہر چہرے پہ جھریاں لکھی ہیں تم کیسا شباب بانٹتے ہو فردوس تمہارے ہاتھ میں ہے بندوں کو عذاب بانٹتے ہو اک ایک کلی کا رنگ فق ہے یہ کیسے گلاب بانٹتے ہو آنکھوں میں تو رت جگے لکھے ہیں تم سمجھے کہ خواب بانٹتے ہو

    مزید پڑھیے

    سوچتے ہیں تو کر گزرتے ہیں

    سوچتے ہیں تو کر گزرتے ہیں ہم تو منجدھار میں اترتے ہیں موت سے کھیلتے ہیں ہم لیکن غیر کی بندگی سے ڈرتے ہیں جان اپنی تو ہے ہمیں بھی عزیز پھر بھی شعلوں پہ رقص کرتے ہیں دل فگاروں سے پوچھ کر دیکھو کتنی صدیوں میں گھاؤ بھرتے ہیں جن کو ہے اندمال زخم عزیز آمد فصل گل سے ڈرتے ہیں چھپ کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3