Parveen Fana Syed

پروین فنا سید

پروین فنا سید کی نظم

    سفر آگہی

    عجیب ہے دشت آگہی کا سفر وفا کی ردا میں لپٹی برہنہ قدموں سے چل رہی ہوں تپے ہوئے ریگزار میں بھی مگر چبھن ہے نہ پاؤں میں کوئی آبلہ ہے تھکن کا نام و نشاں نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    بصارت

    تیرے ہاتھوں میں پیوست میخوں سے بہتا لہو کور آنکھوں پہ چھڑکا تو پلکوں کی چلمن سے تا حد امکاں بصارت کے ہر زاویے پر عجب نور کی دھاریاں تہہ بہ تہہ تیرگی کی روا چیرتی ان گنت مشعلیں آگہی کے دریچوں میں عرفان کے آئینوں میں دمکنے لگیں

    مزید پڑھیے

    وقت

    اندھے وقت کے گہرے کنویں میں ماضی کی ہر یاد چھپی ہے کچھ لمحوں کی کرنیں زرد سنہری آنچل میں لپٹی ہیں کچھ پل ایسے بھی ہیں جن کے آئینے میں دکھ کے انمٹ عکس ابھر کر آنکھوں کے گرداب میں رقصاں لوح دل پر نقش ہوئے ہیں دھوپ اور چھاؤں کے اس کھیل کو حال کا ہر پل دیکھ رہا ہے دکھ کے بھاری بوجھل ...

    مزید پڑھیے

    پل صراط

    تمہارا دل تجلیوں کے طور کی ضیا سے آگہی تلک ریاضتوں کے نور میں گندھا ہوا امانتوں کے بار سے دبا ہوا تمہاری روح کے لطیف آئینے میں اپنا عکس ڈھونڈنے عقیدتوں کی گرد سے اٹی ہوئی انا کے پل صراط سے گزر کے آ رہی ہوں میں

    مزید پڑھیے

    کہاں ہے شوریدہ سر مسافر

    وہ جس کی آنکھوں میں رت جگوں کی بصیرتیں ہیں وہ مشعل جاں سے دشت کی ظلمتوں میں رستے بنا رہا ہے وہ جس کے تن میں ہزاروں میخیں گڑی ہوئی ہیں کہاں ہے شوریدہ سر مسافر کہ آج خلق اس کو ڈھونڈتی ہے

    مزید پڑھیے

    کہاں جا رہی ہو؟

    ہوا کس قدر تیز ہے اجنبی شام سنولا گئی وقت دونوں گلے مل چکے سر پہ رکھو ردا سن رہی ہو مساجد سے اٹھتی ہوئی روح پرور صدا اٹھ کے دیکھو تو آنگن کا در بند ہے یا کھلا لیکن اس وقت تنہا کھلے سر کہاں جا رہی ہو

    مزید پڑھیے