سفر آگہی
عجیب ہے دشت آگہی کا سفر وفا کی ردا میں لپٹی برہنہ قدموں سے چل رہی ہوں تپے ہوئے ریگزار میں بھی مگر چبھن ہے نہ پاؤں میں کوئی آبلہ ہے تھکن کا نام و نشاں نہیں ہے
عجیب ہے دشت آگہی کا سفر وفا کی ردا میں لپٹی برہنہ قدموں سے چل رہی ہوں تپے ہوئے ریگزار میں بھی مگر چبھن ہے نہ پاؤں میں کوئی آبلہ ہے تھکن کا نام و نشاں نہیں ہے
تیرے ہاتھوں میں پیوست میخوں سے بہتا لہو کور آنکھوں پہ چھڑکا تو پلکوں کی چلمن سے تا حد امکاں بصارت کے ہر زاویے پر عجب نور کی دھاریاں تہہ بہ تہہ تیرگی کی روا چیرتی ان گنت مشعلیں آگہی کے دریچوں میں عرفان کے آئینوں میں دمکنے لگیں
اندھے وقت کے گہرے کنویں میں ماضی کی ہر یاد چھپی ہے کچھ لمحوں کی کرنیں زرد سنہری آنچل میں لپٹی ہیں کچھ پل ایسے بھی ہیں جن کے آئینے میں دکھ کے انمٹ عکس ابھر کر آنکھوں کے گرداب میں رقصاں لوح دل پر نقش ہوئے ہیں دھوپ اور چھاؤں کے اس کھیل کو حال کا ہر پل دیکھ رہا ہے دکھ کے بھاری بوجھل ...
تمہارا دل تجلیوں کے طور کی ضیا سے آگہی تلک ریاضتوں کے نور میں گندھا ہوا امانتوں کے بار سے دبا ہوا تمہاری روح کے لطیف آئینے میں اپنا عکس ڈھونڈنے عقیدتوں کی گرد سے اٹی ہوئی انا کے پل صراط سے گزر کے آ رہی ہوں میں
وہ جس کی آنکھوں میں رت جگوں کی بصیرتیں ہیں وہ مشعل جاں سے دشت کی ظلمتوں میں رستے بنا رہا ہے وہ جس کے تن میں ہزاروں میخیں گڑی ہوئی ہیں کہاں ہے شوریدہ سر مسافر کہ آج خلق اس کو ڈھونڈتی ہے
ہوا کس قدر تیز ہے اجنبی شام سنولا گئی وقت دونوں گلے مل چکے سر پہ رکھو ردا سن رہی ہو مساجد سے اٹھتی ہوئی روح پرور صدا اٹھ کے دیکھو تو آنگن کا در بند ہے یا کھلا لیکن اس وقت تنہا کھلے سر کہاں جا رہی ہو