اٹھی تھیں آندھیاں جن کو بجھانے
اٹھی تھیں آندھیاں جن کو بجھانے
وہ شمعیں اور بھڑکیں اس بہانے
نقابیں بجلیوں کی رخ پہ ڈالے
چمن والوں نے لوٹے آشیانے
یہ کیوں وحشت سے لپکا دست گلچیں
کلی شاید لگی تھی کچھ بتانے
ابھی موہوم ہے سجدے کا مفہوم
جھکا پھر کس لیے سر کون جانے
شعور زندگی کی ڈھال لے کر
چلے ہم موت سے آنکھیں ملانے