سوچتے ہیں تو کر گزرتے ہیں

سوچتے ہیں تو کر گزرتے ہیں
ہم تو منجدھار میں اترتے ہیں


موت سے کھیلتے ہیں ہم لیکن
غیر کی بندگی سے ڈرتے ہیں


جان اپنی تو ہے ہمیں بھی عزیز
پھر بھی شعلوں پہ رقص کرتے ہیں


دل فگاروں سے پوچھ کر دیکھو
کتنی صدیوں میں گھاؤ بھرتے ہیں


جن کو ہے اندمال زخم عزیز
آمد فصل گل سے ڈرتے ہیں


چھپ کے روتے ہیں سب کی نظروں سے
جو گلہ ہے وہ خود سے کرتے ہیں