سنوارے آخرت یا زندگی کو
سنوارے آخرت یا زندگی کو کہاں اتنی بھی مہلت آدمی کو بجھائی آنسوؤں نے آتش غم مگر بھڑکا دیا ہے بیکلی کو بھرم کھل جائے گا دانائیوں کا پکارو تو ذرا دیوانگی کو جو سر جھکتا نہیں ہے دل تو جھک جائے فقط اتنی طلب ہے بندگی کو جو دل سے پھوٹ کر آنکھوں میں چمکے ترستے رہ گئے ہم اس ہنسی کو