Parveen Fana Syed

پروین فنا سید

پروین فنا سید کی غزل

    سنوارے آخرت یا زندگی کو

    سنوارے آخرت یا زندگی کو کہاں اتنی بھی مہلت آدمی کو بجھائی آنسوؤں نے آتش غم مگر بھڑکا دیا ہے بیکلی کو بھرم کھل جائے گا دانائیوں کا پکارو تو ذرا دیوانگی کو جو سر جھکتا نہیں ہے دل تو جھک جائے فقط اتنی طلب ہے بندگی کو جو دل سے پھوٹ کر آنکھوں میں چمکے ترستے رہ گئے ہم اس ہنسی کو

    مزید پڑھیے

    بظاہر یہ جو بیگانے بہت ہیں

    بظاہر یہ جو بیگانے بہت ہیں ہمارے جانے پہچانے بہت ہیں خرد مندو مبارک عزم افلاک زمیں پر چند دیوانے بہت ہیں شبستانوں سے تم نکلو تو دیکھو بھرے شہروں میں ویرانے بہت ہیں تمہارا مے کدہ تم کو مبارک ہمیں یادوں کے پیمانے بہت ہیں گلا کیا غیر کی بیگانگی کا کہ جو اپنے ہیں بیگانے بہت ...

    مزید پڑھیے

    جب بانٹنا ہی عذاب ٹھہرا (ردیف .. و)

    جب بانٹنا ہی عذاب ٹھہرا پھر کیسا حساب مانگتے ہو سب ہونٹوں پہ مہر لگ چکی ہے اب کس سے جواب مانگتے ہو کلیوں کو مسل کے اپنے ہاتھوں پھولوں سے شباب مانگتے ہو ہر لفظ صلیب پر چڑھا کر تم کیسی کتاب مانگتے ہو سب روشنیوں کو چھین کر بھی دیوانوں سے خواب مانگتے ہو فردوس بریں میں مل سکے ...

    مزید پڑھیے

    چوٹ نئی ہے لیکن زخم پرانا ہے

    چوٹ نئی ہے لیکن زخم پرانا ہے یہ چہرہ کتنا جانا پہچانا ہے ساری بستی چپ کی دھند میں ڈوبی ہے جس نے لب کھولے ہیں وہ دیوانا ہے آؤ اس سقراط کا استقبال کریں جس نے زہر کے گھونٹ کو امرت جانا ہے اک اک کر کے سب پنچھی دم توڑ گئے بھری بہار میں بھی گلشن ویرانہ ہے اپنا پڑاؤ دشت وفا بے آب و ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو اب کوئی شکایت تو نہیں

    تجھ کو اب کوئی شکایت تو نہیں یہ مگر ترک محبت تو نہیں میری آنکھوں میں اترنے والے ڈوب جانا تری عادت تو نہیں تجھ سے بیگانے کا غم ہے ورنہ مجھ کو خود اپنی ضرورت تو نہیں کھل کے رو لوں تو ذرا جی سنبھلے مسکرانا ہی مسرت تو نہیں تجھ سے فرہاد کا تیشہ نہ اٹھا اس جنوں پر مجھے حیرت تو ...

    مزید پڑھیے

    تم نے دل کے دیے بجھائے ہیں

    تم نے دل کے دیے بجھائے ہیں ہم غموں کے چراغ لائے ہیں تم سے اب ہم گلہ کریں بھی تو کیا ہم نے خود ہی فریب کھائے ہیں صف بہ صف روشنی کے پردے میں ظلمتوں کے مہیب سائے ہیں تم نے محلوں کی روشنی کے لیے کتنے معصوم دل جلائے ہیں قتل جب بھی ہوئے خیال مرے کیسے کیسے خیال آئے ہیں

    مزید پڑھیے

    ناموس وفا کا پاس رہا شکوہ بھی زباں تک لا نہ سکے

    ناموس وفا کا پاس رہا شکوہ بھی زباں تک لا نہ سکے اندر سے تو روئے ٹوٹ کے ہم پر ایک بھی اشک بہا نہ سکے ساحل تو نظر آیا لیکن طوفاں میں بلا کی شدت تھی موجوں کو منایا لاکھ مگر ہم جانب ساحل آ نہ سکے ہم کہتے کہتے ہار گئے اور دنیا نے کچھ بھی نہ سنا جب دنیا نے اصرار کیا ہم اپنا درد سنا نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3