نصرت مہدی کی غزل

    یہاں ہوا کے سوا رات بھر نہ تھا کوئی

    یہاں ہوا کے سوا رات بھر نہ تھا کوئی مجھے لگا تھا کوئی ہے مگر نہ تھا کوئی تھی ایک بھیڑ مگر ہم سفر نہ تھا کوئی سفر کے وقت جدائی کا ڈر نہ تھا کوئی وہ روشنی کی کرن آئی اور چلی بھی گئی کھلا ہوا مری بستی کا در نہ تھا کوئی بس ایک بار وہ بھولا تھا گھر کا دروازہ پھر اس کے جیسا یہاں در بدر ...

    مزید پڑھیے

    صحرا صحرا بھٹک رہی ہوں میں

    صحرا صحرا بھٹک رہی ہوں میں اب نظر آ کہ تھک رہی ہوں میں بچھ رہے ہیں سراب راہوں میں ہر قدم پر اٹک رہی ہوں میں کیوں نظر خود کو میں نہیں آتی کب سے آئینہ تک رہی ہوں میں ہائے کیا وقت ہے کہ اب اس کی بے دلی میں جھلک رہی ہوں میں وقت سے ٹوٹتا ہوا لمحہ اور اس میں دھڑک رہی ہوں میں جس نے رسوا ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے انجان تو نہیں ہو تم

    مجھ سے انجان تو نہیں ہو تم اتنے بے دھیان تو نہیں ہو تم یہ بظاہر جو بے نیازی ہے کچھ پریشان تو نہیں ہو تم کیسی وحشت ہے کیوں بھٹکتے ہو خانہ ویران تو نہیں ہو تم آؤ بیٹھو کرو گلے شکوے کوئی مہمان تو نہیں ہو تم عشق میں کام عقل سے لو گے ایسے نادان تو نہیں ہو تم کیا کہا تخلیہ ارے ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں مجنوں و فرہاد نہیں ہونے کے

    عشق میں مجنوں و فرہاد نہیں ہونے کے یہ نئے لوگ ہیں برباد نہیں ہونے کے یہ جو دعوے ہیں محبت کے ابھی ہیں جاناں اور دو چار برس بعد نہیں ہونے کے کیا کہا توڑ کے لاؤ گے فلک سے تارے دیکھو ان باتوں سے ہم شاد نہیں ہونے کے نقش ہیں دل پہ مرے اب بھی تمہارے وعدے خیر چھوڑو وہ تمہیں یاد نہیں ہونے ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو تو مشق سماعت ہے چلو تم بولو

    مجھ کو تو مشق سماعت ہے چلو تم بولو تم کو سننا مری عادت ہے چلو تم بولو میں نے خاموشی کو آسان کیا ہے خود پر میری برسوں کی ریاضت ہے چلو تم بولو تم سے آباد ہے باتوں کی طلسمی دنیا یہ تمہاری بھی ضرورت ہے چلو تم بولو ہمہ تن گوش زمانہ ہے ابھی موقع ہے تم کو حاصل یہ سہولت ہے چلو تم ...

    مزید پڑھیے

    رت خزاں کی ہے اور ہری ہوئی ہے

    رت خزاں کی ہے اور ہری ہوئی ہے شاخ گل تو تو باوری ہوئی ہے کیا اڑانوں کو حوصلہ دے گی اے ہوا تو تو خود ڈری ہوئی ہے زندگی مل کبھی تو فرصت سے بات ابھی تجھ سے سرسری ہوئی ہے کوئی منظر نہیں ہے آنکھوں میں رتجگوں کی تھکن بھری ہوئی ہے قربتیں کروٹیں بدلتی ہوئی اور انا بیچ میں دھری ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    اڑنے کی آرزو میں ہوا سے لپٹ گیا

    اڑنے کی آرزو میں ہوا سے لپٹ گیا پتا وہ اپنی شاخ کے رشتوں سے کٹ گیا خود میں رہا تو ایک سمندر تھا یہ وجود خود سے الگ ہوا تو جزیروں میں بٹ گیا اندھے کنویں میں بند گھٹن چیختی رہی چھو کر منڈیر جھونکا ہوا کا پلٹ گیا

    مزید پڑھیے

    آپ شاید بھول بیٹھے ہیں یہاں میں بھی تو ہوں

    آپ شاید بھول بیٹھے ہیں یہاں میں بھی تو ہوں اس زمیں اور آسماں کے درمیاں میں بھی تو ہوں حیثیت کچھ بھی نہیں بس ایک تنکے کی طرح فکر و فن کے اس سمندر میں رواں میں بھی تو ہوں بے سبب بے جرم پتھر شاہزادی بن گئی بس یہی تھی اک صدائے بے زباں میں بھی تو ہوں انکساری پائیداری سب روا داری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3