اڑنے کی آرزو میں ہوا سے لپٹ گیا
اڑنے کی آرزو میں ہوا سے لپٹ گیا
پتا وہ اپنی شاخ کے رشتوں سے کٹ گیا
خود میں رہا تو ایک سمندر تھا یہ وجود
خود سے الگ ہوا تو جزیروں میں بٹ گیا
اندھے کنویں میں بند گھٹن چیختی رہی
چھو کر منڈیر جھونکا ہوا کا پلٹ گیا