عشق میں مجنوں و فرہاد نہیں ہونے کے

عشق میں مجنوں و فرہاد نہیں ہونے کے
یہ نئے لوگ ہیں برباد نہیں ہونے کے


یہ جو دعوے ہیں محبت کے ابھی ہیں جاناں
اور دو چار برس بعد نہیں ہونے کے


کیا کہا توڑ کے لاؤ گے فلک سے تارے
دیکھو ان باتوں سے ہم شاد نہیں ہونے کے


نقش ہیں دل پہ مرے اب بھی تمہارے وعدے
خیر چھوڑو وہ تمہیں یاد نہیں ہونے کے


گھر لیے پھرتی ہوں ہر وقت تمہارے پیچھے
تم مگر وہ ہو کہ آباد نہیں ہونے کے


منع ہے رسم و رواجوں سے بغاوت کرنا
یہ سبق مجھ کو مگر یاد نہیں ہونے کے


ہم نے خود پہنی ہے نصرتؔ یہ وفا کی زنجیر
ہم تو خود ہی کبھی آزاد نہیں ہونے کے