Noor muneeri

نور منیری

نور منیری کی نظم

    خواب حسیں

    ترے گلاب سے ہونٹوں کی تازگی کی قسم بہار کی کوئی آہٹ سنائی دیتی ہے نظر کی جھیل میں مجھ کو اتارنے والے حیات اور بھی رنگیں دکھائی دیتی ہے ابھی ابھی یہ حسیں خواب میں نے دیکھا ہے اگرچہ تم مرے اتنے قریب آئی ہو کہ تم کو چھو لوں تو شاید ہی چھو سکوں یا پھر نظر جو تم سے ملاؤں یقیں نہ تھا اس ...

    مزید پڑھیے

    احتجاج

    چمن زاروں کو صحرا کر دیا ہے یہ کس نے مسخ چہرہ کر دیا ہے جہان نو کی اس اندھی روش نے مرے زخموں کو گہرا کر دیا ہے سنہرے خواب دکھلا کر کسی نے نئی بستی کا شہرہ کر دیا ہے اور اپنی بد قماشی کے چلن سے ہمیں بازی کا مہرہ کر دیا ہے نہیں فریاد کوئی سننے والا سبھی کو گونگا بہرہ کر دیا ہے ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    امن کا سورج

    تم تشدد کے روادار نہیں ہو لیکن امن کی دل سے حمایت بھی کہاں کی تم نے سالہا سال رقابت کے یہ وحشی جذبے کتنے گلشن کی زمیں کر گئے پامال مگر خون انساں بھی ہوا آگ کے شعلے بھی اٹھے دوریاں اور بڑھیں اور بڑھیں اور بڑھیں مسئلہ سب کا بقا کا ہو جہاں پیش نظر اس کے حل کرنے کا انداز بدلنا ...

    مزید پڑھیے

    ایک پیغام اپنے نام

    ہندو مسلم بھید مٹا سب سے اپنی یاری رکھ چاہے اپنی جان گنوا آن وطن کی پیاری رکھ دشمن سے بھی یاری رکھ ایسی بھی دل داری رکھ مایوسی سے مت گھبرا کوشش اپنی جاری رکھ پہلے دینی فرض نبھا پیچھے دنیا داری رکھ دور سفر پر جانا ہے چلنے کی تیاری رکھ کھوٹے سکے مت اپنا آنکھوں میں بیداری رکھ ٹھونک ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا غم

    کسی نے چہرہ ہمارا کبھی پڑھا ہی نہیں کسی نے نام ہمارا کبھی لیا ہی نہیں تمہاری بزم میں ہم بھی شریک رہتے ہیں ہمارا حال کسی نے کبھی سنا ہی نہیں بلند و بانگ یا دعوے یہ دوستی کے اصول عمل کے نام سے خالی رہیں تو سارے فضول کبھی تو پاس ادب ہو وفا شعاری کا دل و نظر میں ہو جذبہ خلوص کاری کا اگر ...

    مزید پڑھیے

    افق ضمیر کی تاریکیوں سے آلودہ

    افق ضمیر کی تاریکیوں سے آلودہ دل و نظر میں وہی انتقام کے شعلے کہیں پہ خون کہیں پر ہے آبرو ریزی جہالتوں کے سمندر میں ڈوبتے انساں اٹھائے دوش پہ اک منصفی کے لاشے کو پھرے ہے شہر میں انسانیت کا سارا وجود نہ کوئی داد نہ فریاد سننے والا ہے ہمارے درد کو راحت سے بھرنے والا ہے چلو کہ دور ...

    مزید پڑھیے