Noor muneeri

نور منیری

نور منیری کی غزل

    آگہی کے در کھلے تو زندگی اچھی لگی

    آگہی کے در کھلے تو زندگی اچھی لگی ہمدموں کی بھیڑ میں بے گانگی اچھی لگی شہر کے ہر موڑ پر آواز کے جنگل ملے ہم کو اپنے گاؤں ہی کی خامشی اچھی لگی یوں تو ہم دیتے رہے تیرے سوالوں کا جواب ہاں مگر اے دوست تیری سادگی اچھی لگی تجزیہ حالات کا ہم ہر طرح کرتے رہے جب سمجھ عاجز ہوئی بے مائیگی ...

    مزید پڑھیے

    تھے سب کے ہاتھ میں خنجر سوال کیا کرتا

    تھے سب کے ہاتھ میں خنجر سوال کیا کرتا میں بے گناہی کا اپنی ملال کیا کرتا اسی کے ایک اشارے پہ قتل عام ہوا امیر شہر سے میں عرض حال کیا کرتا میں قاتلوں کی نگاہوں سے بچ کے بھاگ آیا کہ میرے ساتھ تھے میرے عیال کیا کرتا دھرم کے نام پر انسانیت کی نسل کشی زمانہ ایسی بھی قائم مثال کیا ...

    مزید پڑھیے

    دوش پہ اپنے بار اٹھائے پھرتے ہیں

    دوش پہ اپنے بار اٹھائے پھرتے ہیں ہم کتنے آزار اٹھائے پھرتے ہیں پریم نگر کے باسی کانٹوں کے بن میں پھولوں کا انبار اٹھائے پھرتے ہیں تن کے اجلے من کے کالے ہیں جو لوگ نفرت کی دیوار اٹھائے پھرتے ہیں دین دھرم کے نام پہ قوموں کے دشمن دو دھاری تلوار اٹھائے پھرتے ہیں نورؔ مرے آنگن ...

    مزید پڑھیے

    یہ سہل ہی سہی سکے اچھال کر رکھنا

    یہ سہل ہی سہی سکے اچھال کر رکھنا مگر یہ دل ہے اسے بھی سنبھال کر رکھنا نظر سے لاکھ ہوں اوجھل سراغ منزل کے جنوں کا کام ہے صحرا کھنگال کر رکھنا ہے انقلاب کے شعلوں کی گرمیاں اس میں متاع لوح و قلم کو سنبھال کر رکھنا نیا خیال نئی روشنی نئی راہیں سفر نیا ہے قدم دیکھ بھال کر ...

    مزید پڑھیے

    کیوں شہر میں ہر سمت سے اٹھتا ہے دھواں دیکھ

    کیوں شہر میں ہر سمت سے اٹھتا ہے دھواں دیکھ کیا حال محلے کا ہے جا اپنا مکاں دیکھ آفاق اڑانوں کے ابھی اور بہت ہیں اے طائر پرواز کبھی اپنا جہاں دیکھ دیتا نہیں نفرت کا شجر دھوپ میں سایہ بہتر ہے کوئی سایۂ دیوار اماں دیکھ آکاش یہ تاروں کی ضیا دیکھنے والے اگلے ہے زمیں چاند بھی سورج ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی رات ہے تاروں کا سماں باقی ہے

    چاندنی رات ہے تاروں کا سماں باقی ہے تجھ سے مل مل کے بچھڑنے کا گماں باقی ہے اب تو بس نام ہے یا سنگ نشاں باقی ہے کیسی بستی ہے مکیں ہیں نہ مکاں باقی ہے آتش عشق بجھے ایک زمانہ گزرا راکھ کے ڈھیر تلے اب بھی دھواں باقی ہے کتنی صدیوں سے تو سرگرم عمل ہے دنیا اس کے با وصف مگر کار جہاں باقی ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک سوال کا دیتے ہیں کیوں جواب غلط

    ہر ایک سوال کا دیتے ہیں کیوں جواب غلط پڑھا ہے بچوں نے شاید سبھی نصاب غلط ہمارے عہد وفا کا کہیں بھی ذکر نہیں مورخوں نے لکھے اب کے سارے باب غلط طنابیں ٹوٹ کے بکھریں تمام خیموں کی ہوا کے رخ کا لگایا گیا حساب غلط خیال شوق کی بے چہرگی پہ کیا روئیں دلوں میں ہم نے بسائے تھے سارے خواب ...

    مزید پڑھیے