افق ضمیر کی تاریکیوں سے آلودہ

افق ضمیر کی تاریکیوں سے آلودہ
دل و نظر میں وہی انتقام کے شعلے
کہیں پہ خون کہیں پر ہے آبرو ریزی
جہالتوں کے سمندر میں ڈوبتے انساں
اٹھائے دوش پہ اک منصفی کے لاشے کو
پھرے ہے شہر میں انسانیت کا سارا وجود
نہ کوئی داد نہ فریاد سننے والا ہے
ہمارے درد کو راحت سے بھرنے والا ہے
چلو کہ دور چلیں شہر کی فصیلوں سے
یہاں تو موت کی ہر روز وارداتیں ہیں
یہاں تو خون کے چرچے ہیں اور کچھ بھی نہیں
کہیں تو امن اور انصاف کی زمیں ہوگی
جہاں پہ خوف کا سایہ نہ کوئی ڈر ہوگا
چلو کہ ایسی زمیں کی کہیں تلاش کریں
چلو کہ دور چلیں شہر کی فصیلوں سے