Nishant Shrivastava Nayab

نشانت شری واستو نایاب

نشانت شری واستو نایاب کی غزل

    ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک

    ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک سنی صدیوں پرانی داستاں اک ہماری سوچ تو ملتی ہے کتنی مگر کیوں کر نہیں اپنی زباں اک مرا ہر اک یقیں جھٹلا رہا ہے وہ جو مجھ میں مکیں ہے بد گماں اک ہوئے ہیں بے معانی بال و پر اب ملا نیچے زمیں کے آسماں اک برے لوگوں سے ملواتا ہے مجھ کو جتاتا ہے وہی اچھا یہاں ...

    مزید پڑھیے

    میں ہوا کے دوش پہ رکھا ہوا

    میں ہوا کے دوش پہ رکھا ہوا پتہ ہوں پر شاخ سے ٹوٹا ہوا رات کی گلک میں کرتا جمع ہوں پورے دن کا جو بھی ہے جوڑا ہوا تتلیاں اکثر ہیں مجھ سے پوچھتی پاس میرے پھول تھا جو کیا ہوا وو کوئی سایہ نہیں تھا میں ہی تھا دھوپ تیرا خواہ مخواہ حرجا ہوا پیاس اپنی جڑ سے میں نے ختم کی دریا ہونٹوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    رنگ جتنے ہیں مری شام و سحر کے

    رنگ جتنے ہیں مری شام و سحر کے منتظر رہتے ہیں اس کی اک نظر کے حال ہم سے پوچھ مت دیوار و در کے گھر میں رہ کر بھی نہیں ہم اپنے گھر کے حوصلے کچھ پست تھے دیدۂ تر کے ہم نے ہر غم رکھ لیا تصویر کر کے کوئی تو بازار میں دوکان ہوتی بیچتی جو مشکلیں آسان کر کے ایک منظر میں نہاں تھے اور ...

    مزید پڑھیے

    یہ نہ سمجھو کہ صرف پانی ہے

    یہ نہ سمجھو کہ صرف پانی ہے اس کی آنکھوں میں اک کہانی ہے خواب میں آئینہ چمکتے ہیں نیند ایسے میں کیسے آنی ہے ہم سرابوں سے مطمئن تھے مگر کوئی بولا کہ آگے پانی ہے مفلسی میں بھی ہنس رہا ہے وہ کس کی اس دل پے حکمرانی ہے ایسے حالات میں بھی ہوں زندہ یہ کتابوں کی مہربانی ہے

    مزید پڑھیے

    زیر لب ہم نے تشنگی کر لی

    زیر لب ہم نے تشنگی کر لی اک سمندر سے دوستی کر لی راہ تکتے رہے ہواؤں کی پھر چراغوں نے خودکشی کر لی وقت کی چال دیکھنے کے لیے ہم نے رفتار میں کمی کر لی کام کوئی نہ ہو سکا ہم سے ہم نے ہر فکر پیشگی کر لی ہم نے ہر غم چھپا لیا اس سے ضبط اس نے بھی ہر خوشی کر لی رات بھر کوستے ہیں دنیا ...

    مزید پڑھیے

    ایک سے بڑھ کر ایک تمہارے گہنے ہوں گے

    ایک سے بڑھ کر ایک تمہارے گہنے ہوں گے یاد میری جب آتی ہوگی چبھتے ہوں گے لوگ برے ہیں جو وہ بھی تو روتے ہوں گے ان کے حصے میں بھی تو دکھ ہوتے ہوں گے زیست کے سب اسرار سمجھ آ جاتے ہوں گے موت سے پہلے مرنے والے ہنستے ہوں گے تجھ میں کوئی ادا نہیں تو آئینہ سا تیرے چاہنے والے بالکل سچے ہوں ...

    مزید پڑھیے

    کون تھا وہ ہمیں پتا ہی نہیں

    کون تھا وہ ہمیں پتا ہی نہیں اس نے ہم سے گلہ کیا ہی نہیں روشنی دیکھنا ہے چھو کر کے آنکھوں پہ کچھ یقیں رہا ہی نہیں زندگی سے جواب کیا مانگیں زندگی کو تو کچھ پتا ہی نہیں چاہے دیوار ہو یا دل کوئی ہم سے تو کچھ بھی ٹوٹتا ہی نہیں باغ میں پھر بہار لوٹی ہے اور بھنوروں کو کچھ پتا ہی ...

    مزید پڑھیے

    بڑھ گیا مول زندگانی کا

    بڑھ گیا مول زندگانی کا اب میں حصہ ہوں اک کہانی کا لڑکھڑانے کی پوری کوشش ہے آخری موڑ ہے جوانی کا آج آنکھوں سے کام لیں گے ہم آج موقعہ ہے بے کرانی کا میں خلاؤں تلک تو آ ہی گیا شکر صد شکر رائیگانی کا اشک آہ و فغاں غزل گوئی مرحلہ اب ہے ترجمانی کا

    مزید پڑھیے

    یوں تو میرا سفر تھا صحرا تک

    یوں تو میرا سفر تھا صحرا تک پیاس لے آئی مجھ کو دریا تک آئنہ سا اسے بنانے میں بھول بیٹھا میں اپنا چہرہ تک آنا جانا ہے اب بھی سانسوں کا کر لیا زندگی سے جھگڑا تک آپ منزل کی چھوڑیئے صاحب میں نے ٹھکرا دیا ہے رستہ تک نذر میں نے کیا ہے منظر کو آنکھوں کے باد اب کلیجہ تک

    مزید پڑھیے

    یہاں پر مرا کچھ بھی تھا ہی نہیں

    یہاں پر مرا کچھ بھی تھا ہی نہیں سو گھاٹا ذرا بھی ہوا ہی نہیں رگوں تک میں خوشبو تری جذب کی ہوا پے بھروسہ کیا ہی نہیں مرے دل کی حالت جو تھی وہ رہی یہ پودا شجر تو ہوا ہی نہیں وہ کیا ماجرا تھا کھلا ہی نہیں نشانے پے پتھر لگا ہی نہیں کہانی دئیے کی بہت خوب ہے مگر اس میں ذکر ہوا ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2