رنگ جتنے ہیں مری شام و سحر کے

رنگ جتنے ہیں مری شام و سحر کے
منتظر رہتے ہیں اس کی اک نظر کے


حال ہم سے پوچھ مت دیوار و در کے
گھر میں رہ کر بھی نہیں ہم اپنے گھر کے


حوصلے کچھ پست تھے دیدۂ تر کے
ہم نے ہر غم رکھ لیا تصویر کر کے


کوئی تو بازار میں دوکان ہوتی
بیچتی جو مشکلیں آسان کر کے


ایک منظر میں نہاں تھے اور منظر
دیکھنے والے نے کب دیکھا ٹھہر کے


ایسا تو ممکن نہیں حسرت نہ ہوگی
خار ہنس پاتے نہیں پھولوں سے ڈر کے


اب کہاں پہلا سا رشتہ ہے زمیں سے
میں نے بھی نقصان جھیلے بال و پر کے


اس کی نیت پہ مجھے شک ہو رہا ہے
روشنی وہ بانٹتا ہے آگ کر کے