Nishant Shrivastava Nayab

نشانت شری واستو نایاب

نشانت شری واستو نایاب کی غزل

    حسرتوں کو نہ ذہن رسوا کریں

    حسرتوں کو نہ ذہن رسوا کریں دور ہٹ جائیں ان کو رستہ کریں کون کہتا ہے وو پکارا کریں اپنی آنکھوں کا بس اشارہ کریں سنگ پڑنے لگے رقیبوں پے کیسے تسلیم یے خسارہ کریں خوب لگتے ہیں کتنے گلدستے سب اداؤں کو آپ یکجا کریں سارے کردار اطمینان میں ہیں اب کہانی میں موڑ پیدا کریں آگ کس طرح ہم ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کا ساتھ مہنگا پڑ گیا ہے

    روشنی کا ساتھ مہنگا پڑ گیا ہے جانے کس وحشت میں سایہ پڑ گیا ہے آپ کی جادوگری کے واسطے ہی خود کو حیرت میں دکھانا پڑ گیا ہے پھر مجھے درپیش ہیں خوشیاں تمہاری پھر سے غم اپنا چھپانا پڑ گیا ہے ہم کہاں ان کو بٹھائیں سوچ میں ہیں گھر ہمارا کتنا چھوٹا پڑ گیا ہے دشت کی عظمت بھی اب خطرے میں ...

    مزید پڑھیے

    تیرے حصے کا بچ گیا ہے کچھ

    تیرے حصے کا بچ گیا ہے کچھ میری آنکھوں میں چبھ رہا ہے کچھ ہم بھی ماہر ہیں اب تیرے فن میں دل میں ہے کچھ مگر کہا ہے کچھ یاد کرنا تمہیں ہے عادت میں ورنہ دل میں نہیں بچہ ہے کچھ دن میں بھی سوچتے ہیں ہم تجھ کو رات اس بات پے خفا ہے کچھ نہ ہوا میرا اور نہ اس کا ہی دل کے ہونے کا فائدہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    ان کا دیدار میری قسمت میں

    ان کا دیدار میری قسمت میں عشق تو خوش ہے اتنی اجرت میں میں نے سب کچھ ہی سوچ رکھا ہے مجھ کو ڈالو گے کیسے حیرت میں آئنہ روز مسکراتا ہے کچھ تو اچھا ہے میری صورت میں روشنی نے سکھائی چالاکی کتنا معصوم تھا میں ظلمت میں جانے وہ کس خیال میں گم تھا بات کر بیٹھا مجھ سے غفلت میں میں نہ ...

    مزید پڑھیے

    مانا کہ تجھ میں یہ دل اب مبتلا نہیں ہے

    مانا کہ تجھ میں یہ دل اب مبتلا نہیں ہے پھر بھی ہمارے حق میں یہ فیصلہ نہیں ہے دل توڑ کر وہ میرا سمجھا رہا تھا مجھ کو یہ بات ہے ذرا سی کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم زندگی سے تھوڑا نا آشنا ہوئے ہیں خطرہ تو کم ہوا ہے لیکن ٹلا نہیں ہے میں زندگی کی حد سے آگے نکل تو آیا یاں پر خلا ہے لکھا لیکن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2