اجڑا سا جزیرہ
زخم جیسے کہ زباں رکھتے ہیں
رات بھر حال سناتے ہیں مجھے
جاگتے رہتے ہیں سارے
مرے کمرے کے چراغ
درد میرا بانٹتے ہیں
یک بہ یک دل میں اتر آتا ہے
کوئی اجڑا سا جزیرہ اور پھر
سسکیاں شور مچاتی ہیں ہواؤں کی طرح
اور بڑھتی ہے تری یاد کی شدت مجھ میں
غم کا ادراک مرے ہوش بھلا دیتا ہے
کچھ بگولے مرے آنگن میں بکھر جاتے ہیں
میں انہیں دیکھوں تو آنکھوں میں سمٹ آتے ہیں
نیند پلکوں سے الجھتی ہے چلی جاتی ہے
اور چپکے سے پھر آنکھوں میں نمی آتی ہے
اتنا پھیلا ہوا صحرا ہے غموں کا مجھ میں
کوئی قطرہ کوئی دریا کوئی قلزم بھی جسے
کبھی سیراب نہیں کر سکتا
کوئی چاہے بھی اگر
میرے سنسان شبستان کو آباد نہیں کر سکتا