نسیم نیازی کی غزل

    درد حد سے گزر نہ جائے کہیں

    درد حد سے گزر نہ جائے کہیں آ کہ بیمار مر نہ جائے کہیں ہوش کر ہوش کر مریض الم زخم دل کا یہ بھر نہ جائے کہیں ایک ہی در سے مل گیا سب کچھ مانگنے در بدر نہ جائے کہیں آپ کو دیکھنے کے بعد نظر اب ادھر اور ادھر نہ جائے کہیں تیرہ بختی پہ مت ہنسو میری پھر مقدر سنور نہ جائے کہیں اپنے گیسو ...

    مزید پڑھیے

    مجھ پہ رحمت کا در کھلا رکھنا

    مجھ پہ رحمت کا در کھلا رکھنا اپنی چشم کرم سدا رکھنا دل کے آنگن میں کوئی رہتا ہے سامنے اس کے آئنہ رکھنا یہ جو چہرے بدل کے ملتے ہیں ان سے دامن ذرا بچا رکھنا اپنے اشعار تو سنا لیکن کچھ کسی کے لئے بچا رکھنا بندگی کے لئے ضروری ہے ان کی چوکھٹ پہ سر جھکا رکھنا دل جلے گا تو روشنی ...

    مزید پڑھیے

    کیا بتائیں کہ ہم نے کیا دیکھا

    کیا بتائیں کہ ہم نے کیا دیکھا کون ظاہر کسے چھپا دیکھا ذرے ذرے میں ہے کہیں موجود اور کہیں سب سے وہ جدا دیکھا جو کسی نے زباں سے فرمایا سچ ہر اک لفظ با خدا دیکھا کوئی صورت جو یاد آئی ہمیں جھانک کر دل کا آئنہ دیکھا خواب کی پوچھتے ہیں تعبیریں یہ بتاتے نہیں کہ کیا دیکھا ہاں اسی دن ...

    مزید پڑھیے

    کون کس کا رقیب ہے جاناں

    کون کس کا رقیب ہے جاناں اپنا اپنا نصیب ہے جاناں اس زمانے سے رسم و راہ نہ رکھ یہ زمانہ عجیب ہے جاناں شہر ظلمت میں دن کا سورج بھی رات اسی کا نصیب ہے جاناں زندگی سے مفاہمت کیا ہو زندگی کچھ عجیب ہے جاناں شادمانی سے بہرہ ور ہو لیں غم کی ساعت قریب ہے جاناں کچھ عنایت ادھر بھی ہو ...

    مزید پڑھیے

    حال پوچھا تو ہنس کے ٹال دیا

    حال پوچھا تو ہنس کے ٹال دیا اس نے اک امتحاں میں ڈال دیا زخم دنیا نے جس قدر بھی دئے اس نے زخموں کو اندمال دیا کس لئے اب ہوا کا رخ دیکھیں ناؤ کو جب ندی میں ڈال دیا نسبت راہبر بھی کیا شے ہے گرتے گرتے ہمیں سنبھال دیا بارہا ڈوبتے سفینوں کو موج طوفاں نے خود اچھال دیا روشنی بخش دی ...

    مزید پڑھیے

    حرف غم اس کی صدا ہے شاید

    حرف غم اس کی صدا ہے شاید یہ وہی نغمہ سرا ہے شاید یوں جو ہم خود سے خفا بیٹھے ہیں ہم سے وہ روٹھ گیا ہے شاید دھڑکنیں دل کی بہت تیز ہوئیں اس نے کچھ ہم سے کہا ہے شاید جو اڑائے لئے جاتی ہے ہمیں اس کے کوچے کی ہوا ہے شاید آسماں ہے نہ زمیں اپنی جگہ حادثہ کوئی ہوا ہے شاید کیا اجالے میں ...

    مزید پڑھیے

    کیوں مچلتا ہے مدعا کیا ہے

    کیوں مچلتا ہے مدعا کیا ہے دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے اس مسیحا نفس سے پوچھیں گے آخر اس درد کی دوا کیا ہے تم کسی روز آ کے خلوت میں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے دل کبھی ان سے رسم و راہ نہ رکھ جو نہیں جانتے وفا کیا ہے دل کے چاروں طرف دھواں ہی دھواں یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے اپنا کاسہ تو ...

    مزید پڑھیے