کیوں مچلتا ہے مدعا کیا ہے

کیوں مچلتا ہے مدعا کیا ہے
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے


اس مسیحا نفس سے پوچھیں گے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے


تم کسی روز آ کے خلوت میں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے


دل کبھی ان سے رسم و راہ نہ رکھ
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے


دل کے چاروں طرف دھواں ہی دھواں
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے


اپنا کاسہ تو بھر گیا صاحب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے


آپ غالبؔ ہیں آپ ہی جانیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے