حال پوچھا تو ہنس کے ٹال دیا

حال پوچھا تو ہنس کے ٹال دیا
اس نے اک امتحاں میں ڈال دیا


زخم دنیا نے جس قدر بھی دئے
اس نے زخموں کو اندمال دیا


کس لئے اب ہوا کا رخ دیکھیں
ناؤ کو جب ندی میں ڈال دیا


نسبت راہبر بھی کیا شے ہے
گرتے گرتے ہمیں سنبھال دیا


بارہا ڈوبتے سفینوں کو
موج طوفاں نے خود اچھال دیا


روشنی بخش دی ستاروں کو
اس نے سورج کو گر زوال دیا


جو ملا بے طلب ملا اس سے
جو دیا اس نے بے مثال دیا


اس کو دشمن کہوں کہ دوست نسیمؔ
جس نے ماضی کو لے کے حال دیا