Naseem Ajmal

نسیم اجمل

نسیم اجمل کی غزل

    چاند تاروں کو ضیا دیتا ہے

    چاند تاروں کو ضیا دیتا ہے مجھ کو مجھ سے وہ ملا دیتا ہے یوں بھی ہوتا ہے کبھی رات گئے یک بیک مجھ کو جگا دیتا ہے آنکھ کھولوں تو وہ ہنستا ہے بہت خواب دیکھوں تو ڈرا دیتا ہے چھپتا پھرتا ہے نگاہوں سے میری درد بھی کتنا بڑا دیتا ہے اس سے پوچھوں جو کبھی اس کا پتا اپنی آواز سنا دیتا ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی شام تھی اس دن کی نہ سویرا تھا

    نہ کوئی شام تھی اس دن کی نہ سویرا تھا نہ کوئی عکس تھا اس میں نہ کوئی چہرہ تھا شب خیال میں کچھ تیرتی سی کرنیں تھی فراز فکر کے اوپر چراغ میرا تھا ستارے دیکھ کے اس کو چراغ پا تھے بہت وہ چاند اپنی حویلی سے آج نکلا تھا ہوا کی زد میں تھے جتنے بھی دیپ تھے اس کے سلگ رہا تھا جو دل میں چراغ ...

    مزید پڑھیے

    فیض کیا آسمان سے نکلا

    فیض کیا آسمان سے نکلا جو بھی نکلا گمان سے نکلا چھپ کے مجھ سے اتر گیا مجھ میں پھر بڑی آن بان سے نکلا کبھی نکلا وہ خانۂ دل سے اور کبھی داستان سے نکلا چپ جو ٹوٹی تو اس طرح ٹوٹی جیسے شعلہ زبان سے نکلا آسماں سر پہ اور زمیں نیچے سب یہ اپنے گمان سے نکلا کتنا ڈھونڈا مگر مرا سایہ یاد کے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی صنم تو کبھی وہ خدا تھا آنکھوں میں

    کبھی صنم تو کبھی وہ خدا تھا آنکھوں میں کھلی جو آنکھ تو منظر جدا تھا آنکھوں میں بکھر رہے تھے زمان و مکاں میں سر کتنے کہ پچھلی رات عجب رن پڑا تھا آنکھوں میں اسی سے آئی تھی کون و مکاں کی آوازیں وہ ایک در جو سحر تک کھلا تھا آنکھوں میں گزر گیا وہ مرے دل سے سر جھکائے ہوئے پھر اس کے بعد ...

    مزید پڑھیے

    کہاں کہاں تجھے ڈھونڈوں کہاں دہائی دوں

    کہاں کہاں تجھے ڈھونڈوں کہاں دہائی دوں کسی کا جرم ہو اپنی تو میں صفائی دوں یہ کشت و خون کا منظر نفس نفس لیکن اسیر جاں کو بھلا کس طرح رہائی دوں میں اک صدا ہوں تو تڑپوں تری زبان کے بیچ ہوں اک خیال تو پرواز میں دکھائی دوں کبھی تو پھیلوں ان آنکھوں میں داستاں بن کر کہاں تلک لب خاموش ...

    مزید پڑھیے

    کوئی آہٹ نہ کوئی ڈگر سامنے

    کوئی آہٹ نہ کوئی ڈگر سامنے ایک عکس سفر سربسر سامنے آسماں پر لہو گل بکھرتا ہوا اور ابھرتا ہوا میرا سر سامنے وہ اکیلا ہزاروں سے لڑتا رہا جنگ ہوتی رہی رات بھر سامنے ننھی منی دعاؤں کا حاصل ہے کیا لٹ گیا سارا رخت سفر سامنے ٹوٹ کر سارے منظر بکھرنے لگے بے تحاشا اڑے بام و در ...

    مزید پڑھیے

    اک سمندر سا گرا تھا مجھ میں

    اک سمندر سا گرا تھا مجھ میں پھر بہت شور ہوا تھا مجھ میں راستے سارے ہی مانوس سے تھے اک فقط میں ہی نیا تھا مجھ میں میں بھی تصویر سا چسپاں تھا کہیں سانحہ یہ بھی ہوا تھا مجھ میں خاک اور خون میں نہلایا ہوا کب سے اک شخص پڑا تھا مجھ میں برف کی تہہ میں لرزتی ہوئی لاش ایسا منظر بھی چھپا ...

    مزید پڑھیے

    اس سے گلہ کروں کہ اسے بھول جاؤں میں

    اس سے گلہ کروں کہ اسے بھول جاؤں میں وہ وقت آ پڑا ہے کہ سب کچھ گنواؤں میں کس کو دکھاؤں اپنی شب تار تار کو سایہ بھی کوئی ہو تو اسے کچھ بتاؤں میں مغرور ہو گیا ہے مجھے مجھ سے چھین کر اے کاش اس کو اس سے کبھی چھین لاؤں میں قصے سنا رہا ہے مری بے وفائی کے اس کی طرح سے خود کو کبھی آزماؤں ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ نکلی تو بتائے گی ہے سایہ کتنا

    دھوپ نکلی تو بتائے گی ہے سایہ کتنا اپنا ہی جسم ہے اپنے سے پرایا کتنا خود شناسی کے اندھیروں کی گھنی چھاؤں تلے میرے آسیب نے خود مجھ کو ڈرایا کتنا اس سے بھی ہو نہ سکا اپنی جراحت کا علاج پیار بھی اس نے کیا دل سے لگایا کتنا ہوں وہ سرمایہ جو لٹنے پہ تہی دست نہیں وقت نے میری اداسی کو ...

    مزید پڑھیے

    اکیلی رات تھی چاروں طرف اندھیرا تھا

    اکیلی رات تھی چاروں طرف اندھیرا تھا اور ایک پیڑ سے میرا ہی ہاتھ نکلا تھا عجیب دھن تھی کہ بڑھتے ہی جا رہے تھے قدم ہر اک طرف سے مجھے آندھیوں نے گھیرا تھا نظر تو آئے تھے ہم کو بھی پاؤں اٹھتے ہوئے پھر اس کے بعد بہت دور تک اندھیرا تھا بکھر رہے تھے اندھیرے ہمارے سر پہ مگر افق سے تا بہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2