فیض کیا آسمان سے نکلا
فیض کیا آسمان سے نکلا
جو بھی نکلا گمان سے نکلا
چھپ کے مجھ سے اتر گیا مجھ میں
پھر بڑی آن بان سے نکلا
کبھی نکلا وہ خانۂ دل سے
اور کبھی داستان سے نکلا
چپ جو ٹوٹی تو اس طرح ٹوٹی
جیسے شعلہ زبان سے نکلا
آسماں سر پہ اور زمیں نیچے
سب یہ اپنے گمان سے نکلا
کتنا ڈھونڈا مگر مرا سایہ
یاد کے اک مکان سے نکلا
دل تھما تھا ابھی کی وہ چہرہ
دھند کے درمیان سے نکلا
سایہ سایہ بکھر گیا جب میں
تب ترے امتحان سے نکلا
جو دھندلکوں میں آ رہا ہے نظر
کیا کسی کے بیان سے نکلا
میں پکارا کیا اسے برسوں
وہ نہ اپنے مکان سے نکلا
آہ یوں نکلا اس کے کوچے سے
جیسے اجملؔ جہان سے نکلا