اس سے گلہ کروں کہ اسے بھول جاؤں میں
اس سے گلہ کروں کہ اسے بھول جاؤں میں
وہ وقت آ پڑا ہے کہ سب کچھ گنواؤں میں
کس کو دکھاؤں اپنی شب تار تار کو
سایہ بھی کوئی ہو تو اسے کچھ بتاؤں میں
مغرور ہو گیا ہے مجھے مجھ سے چھین کر
اے کاش اس کو اس سے کبھی چھین لاؤں میں
قصے سنا رہا ہے مری بے وفائی کے
اس کی طرح سے خود کو کبھی آزماؤں میں
کوئی نشاں ملے نہ کسی موج کو کبھی
گہرے سمندروں میں کہیں ڈوب جاؤں میں
اک بار مجھ کو اٹھ کے گلے سے لگا بھی لے
کس کو خبر ہے پھر یہاں آؤں نہ آؤں میں
محو طلسم شوخیٔ ریگ رواں ہے دل
اب بیٹھ کے کہاں تری صورت بناؤں میں
جی چاہتا ہے گھوموں میں اجملؔ خلا خلا
اپنے بدن کے پار کہیں مسکراؤں میں