کوئی آہٹ نہ کوئی ڈگر سامنے

کوئی آہٹ نہ کوئی ڈگر سامنے
ایک عکس سفر سربسر سامنے


آسماں پر لہو گل بکھرتا ہوا
اور ابھرتا ہوا میرا سر سامنے


وہ اکیلا ہزاروں سے لڑتا رہا
جنگ ہوتی رہی رات بھر سامنے


ننھی منی دعاؤں کا حاصل ہے کیا
لٹ گیا سارا رخت سفر سامنے


ٹوٹ کر سارے منظر بکھرنے لگے
بے تحاشا اڑے بام و در سامنے


کشتیاں ٹوٹ کر سب کنارے لگیں
کیسے آسیب کا ہے سفر سامنے


کوئی اوتار تو اس زمیں پر ملے
آئے کوئی تو پیغامبر سامنے


فاصلہ میرے قدموں میں منزل کا تھا
ورنہ رہتا کہاں یہ سفر سامنے


ٹکڑے ٹکڑے بدن رقص کرتا ہوا
اک ذرا سا ادھر بام پر سامنے


اک جھلک سبز مٹی کی آنکھوں میں بس
شعلہ شعلہ شفق لمحہ بھر سامنے


سر پہ بوڑھا گگن کب سے رکھا ہوا
رقص شمس و قمر آنکھ بھر سامنے


کوئی مجھ میں مجھے قید کرتا ہوا
پھینک کر یہ لعل و گہر سامنے


کیا کروں میرا من تھا خلاؤں میں گم
وہ دکھاتا رہا سب ہنر سامنے


سینہ سینہ سفر یہ طلسم ہنر
دیکھ اجملؔ ہے رفتار بھر سامنے