چاند تاروں کو ضیا دیتا ہے

چاند تاروں کو ضیا دیتا ہے
مجھ کو مجھ سے وہ ملا دیتا ہے


یوں بھی ہوتا ہے کبھی رات گئے
یک بیک مجھ کو جگا دیتا ہے


آنکھ کھولوں تو وہ ہنستا ہے بہت
خواب دیکھوں تو ڈرا دیتا ہے


چھپتا پھرتا ہے نگاہوں سے میری
درد بھی کتنا بڑا دیتا ہے


اس سے پوچھوں جو کبھی اس کا پتا
اپنی آواز سنا دیتا ہے


یوں گزرتا ہے مری جان سے وہ
پھول صحرا میں کھلا دیتا ہے


یاد رکھتا ہے ہر اک وقت مجھے
وقت آنے پہ بھلا دیتا ہے


پھونک دیتا ہے مرے درد میں روح
روح میں درد بسا دیتا ہے


ہر شب تار نئے خواب کی اوس
میری پلکوں پہ سجا دیتا ہے


جب بھی گنتا ہوں دل کے زخموں کو
اک نیا پھول کھلا دیتا ہے


اور بہت دور گزر گاہوں میں
ایک قندیل جلا دیتا ہے