اک سمندر سا گرا تھا مجھ میں

اک سمندر سا گرا تھا مجھ میں
پھر بہت شور ہوا تھا مجھ میں


راستے سارے ہی مانوس سے تھے
اک فقط میں ہی نیا تھا مجھ میں


میں بھی تصویر سا چسپاں تھا کہیں
سانحہ یہ بھی ہوا تھا مجھ میں


خاک اور خون میں نہلایا ہوا
کب سے اک شخص پڑا تھا مجھ میں


برف کی تہہ میں لرزتی ہوئی لاش
ایسا منظر بھی چھپا تھا مجھ میں


میں سمجھتا تھا جسے جان نفس
وہ بہت دور کھڑا تھا مجھ میں


اس نے کیوں چھوڑ دیا خانۂ دل
نقش ہر لمس ہرا تھا مجھ میں


تھا کوئی مجھ میں جو تھا مجھ سے حقیر
اور کوئی مجھ سے بڑا تھا مجھ میں


رقص کرتے ہوئے تاروں کا ہجوم
یہ خزانہ بھی گڑھا تھا مجھ میں


آسماں خوف سے تکتا تھا مجھے
کیا کوئی اس سے بڑا تھا مجھ میں