اکیلی رات تھی چاروں طرف اندھیرا تھا

اکیلی رات تھی چاروں طرف اندھیرا تھا
اور ایک پیڑ سے میرا ہی ہاتھ نکلا تھا


عجیب دھن تھی کہ بڑھتے ہی جا رہے تھے قدم
ہر اک طرف سے مجھے آندھیوں نے گھیرا تھا


نظر تو آئے تھے ہم کو بھی پاؤں اٹھتے ہوئے
پھر اس کے بعد بہت دور تک اندھیرا تھا


بکھر رہے تھے اندھیرے ہمارے سر پہ مگر
افق سے تا بہ افق چاندنی کا ڈیرا تھا


میرے خیال میں آ کر نکل گیا وہ رنگ
جو آسماں پہ ہرا اور زمیں پہ نیلا تھا


سبھی کی انگلیاں اٹھی تھیں بس مری جانب
نہ جانے میں نے یہ کس کا لباس پہنا تھا


چمک رہے تھے ستارے جہاں جہاں اجملؔ
وہیں وہیں پہ ذرا آسمان گہرا تھا