Najma Saqib

نجمہ ثاقب

نجمہ ثاقب کی نظم

    پیاری ماں

    پیاری ماں اک بات بتا جس شہر میں اب تو جا کے بسی ہے اس کا موسم کیسا ہے کیا اس بستی میں دن ہوتا ہے واں پہ رات اترتی ہے کیا قبر کی تنہائی میں لیٹا وقت سمے کچھ کہتا ہے یا دن اور رات کی قید سے عاری انت زمانہ بہتا ہے کیا سورج گولے کی چند کرنیں اندر جا کے گرتی ہیں کیا چھت کے نیلے امبر اوپر ...

    مزید پڑھیے

    بلاوا

    کسی پامال رستے پر اگے کیکر بہت سے سنگ پارے ان گھڑے پتھر خزاں کے زرد چہرے پہ بنی حسرت کی تصویریں سلگتی ریت زنجیریں پرندے آسماں سورج ستارے برف تنویریں چٹانوں میں کھدے کتبے مٹی تحریر تمثیلیں کسی افغان کے کچے مکاں پہ پھیلتی انگور کی بیلیں پہاڑوں کی ہتھیلی سے لڑھکتی کاسنی ...

    مزید پڑھیے

    بیساکھ میں بارش

    سوکھی دیوار پہ مینہ آ کے مسلسل برسا چھت کے پہلو میں ٹکا دھات کا پرنالہ بہا شہر کو جاتی سیاہ کار سڑک بھیگ گئی دیکھ کے بدلیاں رمضان مسلسل بھاگا کھینچ کے لائی ہوا مینہ کا آبی دھاگا کھیت کے بیچ میں بادل کا گریبان کھلا اور دھرتی کے کھلے منہ میں آکاش گھلا بھوسہ کھلیان کے پالان پہ جا ...

    مزید پڑھیے

    ایک خیال

    چاند تالاب کے کٹورے میں رات بھر کھیلتا ہے پانی سے جل پری کانچ کا بدن پہنے اس سے ملنے کو روز آتی ہے تتلی خوشبو پہ رقص کرتی ہے سبز ریشم پہ پھول کھلتے ہیں پھول خوشبو کا بانکپن اوڑھے پنکھڑی پنکھڑی بکھرتے ہیں جھاڑیوں کے قریب راہوں پر جگنوؤں کے چراغ جلتے ہیں سات تاروں کے رتھ میں ہو کے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    رات اندھیری کالا بادل دور تلک ویرانی ایک اکیلی کشتی جس کے نیچے گہرا پانی لہروں کی پھنکار کے آگے کشتی کا من ڈولے شوا سمندر کے سینے پہ برکھا موتی رولے دور کسی ویران جزیرے اوپر الو بولے الو کی آواز کو سن کے جاگ اٹھی پروائی رات کا دیسی شالا اوڑھے پیڑ سے ملنے آئی شاخ پہ اٹکی ڈال پہ ...

    مزید پڑھیے