بلاوا

کسی پامال رستے پر اگے کیکر
بہت سے سنگ پارے ان گھڑے پتھر
خزاں کے زرد چہرے پہ بنی حسرت کی تصویریں
سلگتی ریت زنجیریں
پرندے آسماں سورج ستارے برف تنویریں
چٹانوں میں کھدے کتبے مٹی تحریر تمثیلیں
کسی افغان کے کچے مکاں پہ پھیلتی انگور کی بیلیں
پہاڑوں کی ہتھیلی سے لڑھکتی
کاسنی جھیلیں
کہیں اوشو کے جنگل میں
کھڑی بیکار سی جھاڑی
کوئی گمنام ندی
مردہ ساحل
اونگھتی کھاڑی
کہیں رہتاس کی سیڑھی پہ چڑھتی لشکری باتیں
شکستہ لال اینٹوں پر پڑی ماضی کی برساتیں
کسی برگد کے بوڑھے پیڑ کے بالوں میں
گوندھی ریشمی راتیں
پرانی باؤلی متروک راہیں مقبرے گھاتیں
مرے وجدان کے بھیدوں بھرے میدان
میں خیمے لگاتی ہیں
مجھے آواز دیتی ہیں
مجھے اکثر بلاتی ہیں