Najma Saqib

نجمہ ثاقب

نجمہ ثاقب کی غزل

    ابر ویراں جزیرے پہ جھکتا ہوا چاند تاروں پہ زلفیں گراتے ہوئے

    ابر ویراں جزیرے پہ جھکتا ہوا چاند تاروں پہ زلفیں گراتے ہوئے گھاٹ پر ایک کشتی تھی ٹوٹی ہوئی پانیوں پر کنول سرسراتے ہوئے چاند امشب دبے پاؤں چلتا ہوا زرد اشجار کی شاخ پر آئے گا جل پری جھٹ سے پانی میں چھپ جائے گی صفحۂ آب پر دل بناتے ہوئے ساربانوں کے اٹھتے قدم رک گئے اک تمنا کی حدت ...

    مزید پڑھیے

    کالی رات کا نخرہ دیکھو (ردیف .. ے)

    کالی رات کا نخرہ دیکھو ظالم کیسے اتراتی ہے تاروں کا کمخواب پہن کے چاند کو اکثر بہکاتی ہے تکیے پر سرگوشی رکھ کے کان کی بالی سو جاتی ہے زہریلے ناگوں کی سانسیں رات کی رانی مہکاتی ہے چاند سمندر میں اترے تو جل کی مچھلی مر جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    کیا کسی بیج کا یہ خون بہا تھا لوگو

    کیا کسی بیج کا یہ خون بہا تھا لوگو پیڑ جنگل سے بہت دور اگا تھا لوگو لاکھ مشکل ہو مرا ہاتھ سنبھالے رکھنا در سے دیوار نے کل رات کہا تھا لوگو دن کی آغوش میں سورج کا سلگتا ہوا تن شام ہوتے ہی سمندر میں گرا تھا لوگو دیکھ کر مجھ کو اکیلا مری دل جوئی کو سایہ دیوار سے کچھ دور ہٹا تھا ...

    مزید پڑھیے

    دھول مٹی گرد نے سونی فضا آباد کی

    دھول مٹی گرد نے سونی فضا آباد کی خاک پر کنجی دھری تھی خانۂ برباد کی سرنگوں محراب یہ ٹوٹی منڈیریں بام و در طاق میں پھیلی ہوئی سرگوشیاں اجداد کی میں نہیں پہنچا تو تیرے نقش پا نے دیر تک راہ کے پتھر سے سوکھی گھاس سے فریاد کی ڈھونڈھتا پھرتا ہے اکثر یاد کی گلیوں میں دل اونگھتی جمنا ...

    مزید پڑھیے

    مہا پربت کی آنکھوں سے بہا ہے

    مہا پربت کی آنکھوں سے بہا ہے جو آنسو جا کے سندھو میں گرا ہے کب اتریں گے سفینے پانیوں پر یہ دریا کب سے تنہا بہہ رہا ہے پرانے معبدوں میں ایک راہب ابھی تک عہد نامہ کھولتا ہے جلے زیتون کی ٹہنی کے اوپر حلب کی فاختہ محو دعا ہے پہاڑی راستوں پہ آخر شب تمہارا رب ہتھیلی کھولتا ہے

    مزید پڑھیے

    دیے کی لو اگر زخمی ہوئی ہے

    دیے کی لو اگر زخمی ہوئی ہے ہوا بھی رات سے سہمی ہوئی ہے گلی کے پار سناٹے کی بارش گھروں نے خامشی پہنی ہوئی ہے مرے گاؤں کے کچے راستے کی اداسی دھول میں لپٹی ہوئی ہے شجر پر کیا کوئی جادو ہوا ہے کہ ڈالی بیل سے چمٹی ہوئی ہے سرہانے رکھ کے چرخہ اور پونی تھکی بڑھیا ذرا لیٹی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    شب کی آغوش میں جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے

    شب کی آغوش میں جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے نیند اک خواب پریشان کا گھر لگتا ہے چیخ اٹھتے ہیں ٹھٹھرتے ہوئے پتے جوں ہی سرد جھونکے کا گھنی شاخ سے سر لگتا ہے یوکیلپٹس کے درختوں پہ پسارے پاؤں اونگھتا چاند اداسی کا نگر لگتا ہے دیکھ کر آب زدہ شہر کو ساحل بولا ڈوب جانے میں کہاں کوئی ہنر لگتا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسی تیرگی سی آ گئی ہے چاند تاروں میں

    یہ کیسی تیرگی سی آ گئی ہے چاند تاروں میں زمیں زادے تماشا دیکھنے آئے قطاروں میں مرے گاؤں کے کچے راستے میں دھول اڑتی ہے تمہارے شہر کے بچے پلے ہیں سبزہ زاروں میں جٹائیں آنکھ پہ ڈالے کوئی برگد یہ کہتا تھا مری شاخوں کے غنچے اب کھلیں گے کن بہاروں میں ہمارے شہر میں کچھ نوجواں ایسے ...

    مزید پڑھیے