ایک نظم
رات اندھیری کالا بادل دور تلک ویرانی
ایک اکیلی کشتی جس کے نیچے گہرا پانی
لہروں کی پھنکار کے آگے کشتی کا من ڈولے
شوا سمندر کے سینے پہ برکھا موتی رولے
دور کسی ویران جزیرے اوپر الو بولے
الو کی آواز کو سن کے جاگ اٹھی پروائی
رات کا دیسی شالا اوڑھے پیڑ سے ملنے آئی
شاخ پہ اٹکی ڈال پہ مٹکی پتوں پہ لہرائی
بات نہیں تھی اتنی جتنی پھیل گئی رسوائی