ایک خیال

چاند تالاب کے کٹورے میں
رات بھر کھیلتا ہے پانی سے
جل پری کانچ کا بدن پہنے
اس سے ملنے کو روز آتی ہے
تتلی خوشبو پہ رقص کرتی ہے
سبز ریشم پہ پھول کھلتے ہیں
پھول خوشبو کا بانکپن اوڑھے
پنکھڑی پنکھڑی بکھرتے ہیں
جھاڑیوں کے قریب راہوں پر
جگنوؤں کے چراغ جلتے ہیں
سات تاروں کے رتھ میں ہو کے سوار
چاند واپس فلک کو جاتا ہے
تم کسی شام کے جھروکے میں
ہم سے ملنے وہیں پہ آ جانا