دھول مٹی گرد نے سونی فضا آباد کی

دھول مٹی گرد نے سونی فضا آباد کی
خاک پر کنجی دھری تھی خانۂ برباد کی


سرنگوں محراب یہ ٹوٹی منڈیریں بام و در
طاق میں پھیلی ہوئی سرگوشیاں اجداد کی


میں نہیں پہنچا تو تیرے نقش پا نے دیر تک
راہ کے پتھر سے سوکھی گھاس سے فریاد کی


ڈھونڈھتا پھرتا ہے اکثر یاد کی گلیوں میں دل
اونگھتی جمنا کنارے شام الہ آباد کی


زخم رسنے لگ گیا جب خون آلودہ کڑی
قیدیوں نے حلقۂ زنجیر سے آزاد کی