شب کی آغوش میں جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
شب کی آغوش میں جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
نیند اک خواب پریشان کا گھر لگتا ہے
چیخ اٹھتے ہیں ٹھٹھرتے ہوئے پتے جوں ہی
سرد جھونکے کا گھنی شاخ سے سر لگتا ہے
یوکیلپٹس کے درختوں پہ پسارے پاؤں
اونگھتا چاند اداسی کا نگر لگتا ہے
دیکھ کر آب زدہ شہر کو ساحل بولا
ڈوب جانے میں کہاں کوئی ہنر لگتا ہے
قافلے والو ذرا دیر کو سو لینے دو
نیند کا چہرہ ہمیں خواب دگر لگتا ہے