نینا عادل کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    ہر ایک حرف ہو امکان تیرے جیسا ہو

    ہر ایک حرف ہو امکان تیرے جیسا ہو مری کتاب کا عنوان تیرے جیسا ہو ہزار بار گوارا ہے پارسائی کو جو میری ذات پہ بہتان تیرے جیسا ہو کوئی سوال جو مشکل نہ ہو ترے جیسا کوئی جواب جو آسان تیرے جیسا ہو میں عمر قید بصد ناز کاٹ سکتی ہوں اگر نصیب میں زندان تیرے جیسا ہو محبتوں کا صلہ ہو تو ہو ...

    مزید پڑھیے

    ہے بال و پر میں وحشت سی بے سمت اڑانیں بھرتی ہوں

    ہے بال و پر میں وحشت سی بے سمت اڑانیں بھرتی ہوں اپنے اندر کے جنگل میں گم ہو جانے سے ڈرتی ہوں پھر آس کا دریا بہتا ہے پھر سبزہ اگ اگ آتا ہے پھر دھوپ کنارے بیٹھی میں اک خواب کی چھاگل بھرتی ہوں کیوں آگ دہکتی ہے مجھ میں کیوں بارش ہوتی ہے مجھ میں جب دھیان سے ملتی ہوں تیرے جب تیرے من میں ...

    مزید پڑھیے

    غروب مہر جہاں تاب ہونے والا ہے

    غروب مہر جہاں تاب ہونے والا ہے یہ سب فریب نظر خواب ہونے والا ہے جو تھا وہ نادر و نایاب ہو گیا اور اب جو ہے وہ نادر و نایاب ہونے والا ہے یہ گرم جوش ہواؤں کا آخری نوحہ ہمارے سوگ میں برفاب ہونے والا ہے ہم ایسے گام پہ دریائے خوف میں ہیں کہ اب شعور لقمۂ گرداب ہونے والا ہے یہ پشتہ ...

    مزید پڑھیے

    ریا کاری کے دھندوں میں نہ تو شامل نہ میں شامل

    ریا کاری کے دھندوں میں نہ تو شامل نہ میں شامل خدا کے نیک بندوں میں نہ تو شامل نہ میں شامل وفا کی سوکھتی جھیلوں سے لاکھوں کوچ کرتے ہیں مگر اڑتے پرندوں میں نہ تو شامل نہ میں شامل تماشا دیکھتے ہیں آپ اپنا اور ہنستے ہیں ہمارے درد مندوں میں نہ تم شامل نہ میں شامل ابھی تو بھیگتے ...

    مزید پڑھیے

    بوجھ اپنا سہارتے ہیں ہم

    بوجھ اپنا سہارتے ہیں ہم کون سا تیر مارتے ہیں ہم آنکھ کے پار کس خموشی سے ایک دریا اتارتے ہیں ہم اور ہنستا ہے آئینہ ہم پر اور خود کو سنوارتے ہیں ہم ہر نئی شام اپنے پہلو میں ایک سائے کو مارتے ہیں ہم کوئی بھی تو نہیں ہے کوئی بھی جانے کس کو پکارتے ہیں ہم

    مزید پڑھیے

تمام

13 نظم (Nazm)

    ڈر

    کیسے نکلے گا جیتے جی دل سے ڈر کا کا صاحب کب خوف کی وحشی گلیوں میں بھٹکی ہوئی ساعت لوٹے گی؟ کب اندیشوں کے سانپ مرے پیڑوں سے لپٹنا چھوڑیں گے؟ سہمے ہوئے شبدوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوں کیسے بتلاؤں کیوں مجھ کو دن کے زہریلے ہاتھوں سے! شاموں کے سرخ آسیبوں سے، راتوں کی بے دل آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    آزادی

    رستے میں پڑے روڑے پتھر پہرہ دیتے وردی والے دور سے آتا شور شرابہ نکڑ پہ پڑی خالی بوتل کار کے نیچے سوتا کتا اور غبار اڑاتی ہوائیں سب کچھ اچھا لگتا ہے جب چلنے کی آزادی ہو

    مزید پڑھیے

    شب آخر

    کوئی دستک مسلسل ہے کہیں ہے مستقل آہٹ ہوا کا شور ہے شاید کبھی محسوس ہوتا ہے سنہرے خشک پتوں میں سے گزرا سانپ کا جوڑا پرندہ کوئی سہما ہے فضا میں سرسراہٹ ہے مرے اندر بھٹکتی ہے کوئی آواز یا شاید بلاتیں ہیں مجھے اس دم بچھڑنے والوں کی یادیں وہ جن پر زندگی اک خوف کی صورت مسلط ہے کبھی کے ...

    مزید پڑھیے

    فسون خواب

    برنگ کیف و سرشاری حدیث دل کہو ہم دم! ہمہ تن گوش ہے ساعت شراب شب اترتی ہے بہت آہستہ آہستہ سفال خواب میں مدھم تمہیں اس پل اجازت ہے کہو! یوں خلوت جاں میں بلوریں چوڑیاں چھن چھن چھنکتی شور کرتی ہیں مرا دل ڈول جاتا ہے وفور حسن میں لپٹی تمہاری عنبریں زلفیں... دھڑکنا بھول جاتا ہے کہو! کاجل ...

    مزید پڑھیے

    اپریل بہار کا استقبال کرتا ہے

    فروغ شادابئ چمن کی مہکتی مٹی سے پھوٹ نکلا ہے نرم سبزہ حریص تخلیق نم زمیں نے گلوں سے دامن اداس بیلوں کے بھر دیے ہیں عجیب رت ہے! کہ بوڑھی شاخوں میں سانس لیتا ہے سبز جوبن خیالوں، خوابوں کی رہ گزر پر چٹک رہی ہیں ہزار کلیاں نگاہ دل کے گزیدہ گوشے رہین نکہت فضا کی پوروں میں جاگ اٹھی ہے ...

    مزید پڑھیے

تمام