شب آخر
کوئی دستک مسلسل ہے کہیں ہے مستقل آہٹ
ہوا کا شور ہے شاید
کبھی محسوس ہوتا ہے سنہرے خشک پتوں میں سے گزرا سانپ کا جوڑا
پرندہ کوئی سہما ہے
فضا میں سرسراہٹ ہے
مرے اندر بھٹکتی ہے کوئی آواز یا شاید
بلاتیں ہیں مجھے اس دم بچھڑنے والوں کی یادیں
وہ جن پر زندگی اک خوف کی صورت مسلط ہے
کبھی کے ہار کے یا زندگی سے روٹھ بیٹھے جو
کبھی یوں لگتا ہے جیسے کسی تاریک بستی میں
چلی آندھی
قضا آئی
اجل شاید مری کھڑکی تلک بستر تلک آئی
ستارے ڈوبنے کو ہیں
اندھیرا بین کرتا ہے
خدایا نیند کا غلبہ
دیے کی لو بھڑکتی ہے
بجھا کر آخری لمحہ