غروب مہر جہاں تاب ہونے والا ہے

غروب مہر جہاں تاب ہونے والا ہے
یہ سب فریب نظر خواب ہونے والا ہے


جو تھا وہ نادر و نایاب ہو گیا اور اب
جو ہے وہ نادر و نایاب ہونے والا ہے


یہ گرم جوش ہواؤں کا آخری نوحہ
ہمارے سوگ میں برفاب ہونے والا ہے


ہم ایسے گام پہ دریائے خوف میں ہیں کہ اب
شعور لقمۂ گرداب ہونے والا ہے


یہ پشتہ بندی مگر کس کے کام آئے گی
ہر ایک اشک تو سیلاب ہونے والا ہے