ہے بال و پر میں وحشت سی بے سمت اڑانیں بھرتی ہوں
ہے بال و پر میں وحشت سی بے سمت اڑانیں بھرتی ہوں
اپنے اندر کے جنگل میں گم ہو جانے سے ڈرتی ہوں
پھر آس کا دریا بہتا ہے پھر سبزہ اگ اگ آتا ہے
پھر دھوپ کنارے بیٹھی میں اک خواب کی چھاگل بھرتی ہوں
کیوں آگ دہکتی ہے مجھ میں کیوں بارش ہوتی ہے مجھ میں
جب دھیان سے ملتی ہوں تیرے جب تیرے من میں اترتی ہوں
کب مجھ کو رہائی ملتی تھی ناحق جو قفس بھی توڑ دیا
بج اٹھتی ہیں زنجیریں سی میں پاؤں جہاں بھی دھرتی ہوں
اک پھول کی پتی کا بستر اک اوس کے موتی کا تکیہ
تتلی کے پروں کو اوڑھ کے میں خوابوں میں آن ٹھہرتی ہوں
دل غم سے رہائی چاہتا ہے اور وہ بھی جیتے جی صاحب
پھر تجھ میں پنہ لے لیتی ہوں پھر خود سے کنارہ کرتی ہوں
ہیں ناگ کا پھن کالی راتیں لمحہ لمحہ ڈستی جاویں
سو بار تڑپتی ہوں صاحب سو بار میں جیتی مرتی ہوں