بوجھ اپنا سہارتے ہیں ہم

بوجھ اپنا سہارتے ہیں ہم
کون سا تیر مارتے ہیں ہم


آنکھ کے پار کس خموشی سے
ایک دریا اتارتے ہیں ہم


اور ہنستا ہے آئینہ ہم پر
اور خود کو سنوارتے ہیں ہم


ہر نئی شام اپنے پہلو میں
ایک سائے کو مارتے ہیں ہم


کوئی بھی تو نہیں ہے کوئی بھی
جانے کس کو پکارتے ہیں ہم