Mustafa Shahab

مصطفی شہاب

مصطفی شہاب کی غزل

    قلم بھی روشنائی دے رہا ہے

    قلم بھی روشنائی دے رہا ہے مجھے اپنی کمائی دے رہا ہے میں دریا دے رہا ہوں کشتیوں کو وہ مجھ کو نا خدائی دے رہا ہے کوئی خاموش سا طوفاں ہوا کا پرندوں کو سنائی دے رہا ہے مری نظروں سے اوجھل ہے مگر وہ جدھر دیکھوں دکھائی دے رہا ہے شہابؔ اڑ کر چراغوں تک تو پہنچو اگر کچھ کچھ سجھائی دے رہا ...

    مزید پڑھیے

    اجالوں کو اندھیروں سے بچانا پڑ گیا ہے

    اجالوں کو اندھیروں سے بچانا پڑ گیا ہے عجب یک طرفہ مشکل میں زمانہ پڑ گیا ہے زمیں کا دوش کیسا کم نگاہی سے ہماری پرندوں کو یہاں کم آب و دانہ پڑ گیا ہے تحفظ کی لکیریں کھینچ کر بیٹھے تھے ہم لوگ پر اب دیوار اک اونچی اٹھانا پڑ گیا ہے کہا تھا میں نے کھو کر بھی تجھے زندہ رہوں گا وہ ایسا ...

    مزید پڑھیے

    رات روشن نہ ہوئی کاہکشاں ہوتے ہوئے

    رات روشن نہ ہوئی کاہکشاں ہوتے ہوئے میں بھی لو دے نہ سکا شعلۂ جاں ہوتے ہوئے کر لیا جذب مرا دور کناروں نے وجود موج دریا نہ بنا جوئے رواں ہوتے ہوئے کیوں گراں بار ہے احساس پہ تنہائی کی صبح پاس میرے ترے ہونے کا گماں ہوتے ہوئے یہ بھی ممکن ہے کہ میں جنگ میں فاتح ٹھہروں تیرے قبضے میں ...

    مزید پڑھیے

    وہ تماشا آپ کی جادو بیانی سے ہوا

    وہ تماشا آپ کی جادو بیانی سے ہوا ایک سناٹا ہماری بے زبانی سے ہوا ایک پل میں اٹھ گئے پردے کئی اسرار سے وہ نہ ہوتا جو ذرا سی بد گمانی سے ہوا بڑھ گئی کچھ طاقت گفتار بھی رفتار سے شور پیدا موج دریا میں روانی سے ہوا اڑ گئی خوشبو ہوا میں دھوپ رنگت لے اڑی فائدہ کیا خاک گل کی پاسبانی سے ...

    مزید پڑھیے

    میں سمندر نہ بنا جوئے رواں ہوتے ہوئے

    میں سمندر نہ بنا جوئے رواں ہوتے ہوئے بن کے جگنو نہ اڑا شعلہ فشاں ہوتے ہوئے رفتہ رفتہ بھی ہوئے کام جنہیں ہونا تھا کیوں اندھیرے نہ چھٹے صبح عیاں ہوتے ہوئے کل عجب بات ہوئی اوج پہ تھی تنہائی پاس میرے ترے ہونے کا گماں ہوتے ہوئے تو نہ بن جائے کہیں پہلا نشانہ میرا تیرے قابو میں مرے ...

    مزید پڑھیے

    ہم کسی سایۂ دیوار میں آ بیٹھے ہیں

    ہم کسی سایۂ دیوار میں آ بیٹھے ہیں یا کہیں شام کے آثار میں آ بیٹھے ہیں ہم کہ جز اپنے سوا اوروں سے واقف ہی نہیں خود سے اکتائے تو دو چار میں آ بیٹھے ہیں ہم کو بھاتی نہ تھی خوشبوئے چمن تو اٹھ کر گھر کے گلدان کی مہکار میں آ بیٹھے ہیں یہ عجب لوگ ہیں جینے کی تمنا لے کر صبح ہوتے ہی صف دار ...

    مزید پڑھیے

    چھو کے گزرا مجھے زمانہ سا

    چھو کے گزرا مجھے زمانہ سا پیرہن ہو گیا پرانا سا اک پرانا سا ربط ہے اس سے اک تعلق ہے غائبانہ سا ایک قطرہ صدف میں کیا اترا کھل گیا ایک کارخانہ سا دل کی ٹوٹی فصیل میں اب بھی ایک در وا ہے عارفانہ سا اب بھی اس کی گلی میں مڑتا ہے دل سے اک راستہ پرانا سا تھی نظر اس پہ دشمنوں جیسی عشق ...

    مزید پڑھیے

    کیسے پتا چلے گا اگر سامنا نہ ہو

    کیسے پتا چلے گا اگر سامنا نہ ہو میں جس کو چاہتا ہوں مجھے چاہتا نہ ہو شب کے سفر میں چاند ستارے تو ساتھ ہیں کچھ اور مہربان فلک ہو تو کیا نہ ہو بچھڑا وہ مجھ سے ایسے نہ بچھڑے کبھی کوئی اب یوں ملا ہے جیسے وہ پہلے ملا نہ ہو پیتا ہوں روز اس کی نصیحت کے باوجود میرے گناہ کی کہیں دوہری سزا ...

    مزید پڑھیے

    اک شمع کا سایہ تھا کہ محراب میں ڈوبا

    اک شمع کا سایہ تھا کہ محراب میں ڈوبا اک میں کہ ترے ہجر کے گرداب میں ڈوبا میری شب تاریک کا چہرہ ہوا روشن سورج سا کوئی شام کو مہتاب میں ڈوبا ہے دیدۂ بے خواب مرا کتنا فریبی جب دیکھیے لگتا ہے کسی خواب میں ڈوبا دل تھا کہ کوئی کھیل میں پھینکا ہوا پتھر موجوں سے جو لڑتا ہوا تالاب میں ...

    مزید پڑھیے

    پھول نے مرجھاتے مرجھاتے کہا آہستہ سے

    پھول نے مرجھاتے مرجھاتے کہا آہستہ سے ہو رہی ہے مجھ سے خوشبو بھی جدا آہستہ سے قربتیں تھیں پھر بھی لگتا ہے ہمارے درمیاں آ کے حائل ہو گیا اک فاصلہ آہستہ سے اک معمہ ہے چمن سے اس پرندے کا سفر شام کو جو آشیاں سے اڑ گیا آہستہ سے رکھ لیا ضدی انا نے پھر مرے سر کا وقار اونچا نیزے کی انی پر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3