میں سمندر نہ بنا جوئے رواں ہوتے ہوئے
میں سمندر نہ بنا جوئے رواں ہوتے ہوئے
بن کے جگنو نہ اڑا شعلہ فشاں ہوتے ہوئے
رفتہ رفتہ بھی ہوئے کام جنہیں ہونا تھا
کیوں اندھیرے نہ چھٹے صبح عیاں ہوتے ہوئے
کل عجب بات ہوئی اوج پہ تھی تنہائی
پاس میرے ترے ہونے کا گماں ہوتے ہوئے
تو نہ بن جائے کہیں پہلا نشانہ میرا
تیرے قابو میں مرے تیر و کماں ہوتے ہوئے
باغ ویران بہاروں میں رہے اور شادابؔ
پھول جنگل میں کھلے فصل خزاں ہوتے ہوئے