Mustafa Shahab

مصطفی شہاب

مصطفی شہاب کی غزل

    کسی نے بھی اسے دیکھا نہیں ہے

    کسی نے بھی اسے دیکھا نہیں ہے وہ اک احساس ہے چہرہ نہیں ہے مری جو سانس آ کر جا رہی ہے تو کیا یہ جان کا جانا نہیں ہے عجب شہر انا میں جی رہا ہوں کسی کے پاس آئینا نہیں ہے مجھے جو لوگ رستہ دے رہے ہیں انہیں خود راستہ ملتا نہیں ہے اکیلا سا جو ہے اک شخص باہر وہ مجھ میں ہے مگر تنہا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    عکس دیکھا تو لگا کوئی کمی ہے مجھ میں

    عکس دیکھا تو لگا کوئی کمی ہے مجھ میں آئنہ کہتا تھا موجود سبھی ہے مجھ میں روشنی پھر تجھے درپیش ہے اک اور سفر دور تک جائے گی جو آگ لگی ہے مجھ میں کروٹیں لے کے سحر کرنے کی پرخار تھکن کبھی تجھ میں ہے نمایاں تو کبھی ہے مجھ میں کوئی احساس زیاں جاگ اٹھا ہے جیسے ایک الجھی سی گرہ جب سے ...

    مزید پڑھیے

    قدم قدم پر تمہاری یوں تو عنایتیں بھی بہت ہوئی ہیں

    قدم قدم پر تمہاری یوں تو عنایتیں بھی بہت ہوئی ہیں مجھے مری بے نیازیوں پر ندامتیں بھی بہت ہوئی ہیں یہ مت سمجھنا کہ آنسوؤں ہی سے بھیگ جاتی ہیں اس کی پلکیں کہ بارہا چشم نم سے اس کی کرامتیں بھی بہت ہوئی ہیں عجب تماشا ہے ظلم سہہ کر بھی سارے مظلوم مطمئن ہیں انہیں کی جانب سے قاتلوں کی ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ سی عمر بسر کرنا ہے

    دھوپ سی عمر بسر کرنا ہے ایک دیوار کو سر کرنا ہے آنکھ تو صرف شہادت دے گی دل کو تصدیق سحر کرنا ہے اب فصیلوں پہ اگانا ہے گلاب فوج کو شہر بدر کرنا ہے صرف جگنو سا چمکنا ہے شہابؔ کب مجھے کار خضر کرنا ہے

    مزید پڑھیے

    پرانے گھر میں نیا گھر بسانا چاہتا ہے

    پرانے گھر میں نیا گھر بسانا چاہتا ہے وہ سوکھے پھول میں خوشبو جگانا چاہتا ہے نہ جانے کیوں ترے معصوم جھوٹ کو آخر زمانہ سچ کی طرح آزمانا چاہتا ہے ابھی تپاس سے نکلا نہیں ترا سادھو کہ پھر سے اک نئی دھونی رمانا چاہتا ہے یہ آب دیدہ ٹھہر جائے جھیل کی صورت کہ ایک چاند کا ٹکڑا نہانا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو ایسے ہیں کہ جن سے پھر ملا جاتا نہیں

    کچھ تو ایسے ہیں کہ جن سے پھر ملا جاتا نہیں ایک وہ بھی ہے بنا جس کے رہا جاتا نہیں ہوتے ہوتے میں پہنچ جاتا ہوں اپنے آپ تک اس سے آگے اور کوئی راستہ جاتا نہیں کتنی دھیمی ہو گئی ہے آنچ اپنے پیار کی ہم دھوئیں میں گھر گئے ہیں اور جلا جاتا نہیں

    مزید پڑھیے

    اک انقلاب کہ یکسر تھا اس کے جاتے ہی

    اک انقلاب کہ یکسر تھا اس کے جاتے ہی کہ دل لہو نہیں پتھر تھا اس کے جاتے ہی وہ عمر بھر مجھے جس سے رہائی دے نہ سکا میں اس حصار کے باہر تھا اس کے جاتے ہی اسی کے دم سے تھا قائم نظام مے خانہ کہیں سبو کہیں ساغر تھا اس کے جاتے ہی مجھے تو پہلے ہی اشکوں نے راستہ نہ دیا غبار راہ بھی سر پر تھا ...

    مزید پڑھیے

    جب اس نے آنے کا اک دن ادھر ارادہ کیا

    جب اس نے آنے کا اک دن ادھر ارادہ کیا تو میں نے دل کا مکاں اور بھی کشادہ کیا مرے مزاج سے ملتا نہیں تھا میرا لباس تو تار تار یہی سوچ کر لبادہ کیا نہ تھا جو جیت کا امکاں تو صلح کر لی ہے یوں پچھلی ہار سے اس بار استفادہ کیا وہ ایک شخص جو مجھ سے گریز پا ہے بہت گماں ہے پیار بھی مجھ سے اسی ...

    مزید پڑھیے

    دل اک دنیا بسا لیتا ہے گر کوئی نہیں آتا

    دل اک دنیا بسا لیتا ہے گر کوئی نہیں آتا فقط محسوس کرتا ہے نظر کوئی نہیں آتا خبر اچھی بری تازہ پرانی ہو نہ ہو پھر بھی ہماری محفلوں میں بے خبر کوئی نہیں آتا جو پیچھے چھوڑ آئے ہیں اسی پہ لوٹ جائیں گے کھلے گا جب کہ ان رستوں پہ گھر کوئی نہیں آتا کبھی شاطر سے شاید اس لیے بھی جیت سکتا ...

    مزید پڑھیے

    اچھا مجھے کرتا ہے میں اچھا نہیں ہوتا

    اچھا مجھے کرتا ہے میں اچھا نہیں ہوتا پھر ایسا مسیحا تو مسیحا نہیں ہوتا قسمت کا دھنی تھا میں تبھی جیت لی بازی ایسا نہیں ہوتا جو میں ایسا نہیں ہوتا وہ چاک گریباں مرا لوگوں کو دکھاتے سیتا ہے مگر سوئی میں دھاگہ نہیں ہوتا چہرے پہ ہر اک دن کے لکھی جاتی ہے تقدیر سورج کا نکلنا ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3