کیسے پتا چلے گا اگر سامنا نہ ہو

کیسے پتا چلے گا اگر سامنا نہ ہو
میں جس کو چاہتا ہوں مجھے چاہتا نہ ہو


شب کے سفر میں چاند ستارے تو ساتھ ہیں
کچھ اور مہربان فلک ہو تو کیا نہ ہو


بچھڑا وہ مجھ سے ایسے نہ بچھڑے کبھی کوئی
اب یوں ملا ہے جیسے وہ پہلے ملا نہ ہو


پیتا ہوں روز اس کی نصیحت کے باوجود
میرے گناہ کی کہیں دوہری سزا نہ ہو


رکھتا ہوں یاد اس لیے ہر فصل گل شہابؔ
دن ہوں برے ہزار مگر دل برا نہ ہو