اجالوں کو اندھیروں سے بچانا پڑ گیا ہے
اجالوں کو اندھیروں سے بچانا پڑ گیا ہے
عجب یک طرفہ مشکل میں زمانہ پڑ گیا ہے
زمیں کا دوش کیسا کم نگاہی سے ہماری
پرندوں کو یہاں کم آب و دانہ پڑ گیا ہے
تحفظ کی لکیریں کھینچ کر بیٹھے تھے ہم لوگ
پر اب دیوار اک اونچی اٹھانا پڑ گیا ہے
کہا تھا میں نے کھو کر بھی تجھے زندہ رہوں گا
وہ ایسا جھوٹ تھا جس کو نبھانا پڑ گیا ہے
حقیقت کو تماشا سے جدا کرنے کی خاطر
اٹھا کر بارہا پردہ گرانا پڑ گیا ہے
شہابؔ اتنی ہوائیں ہو گئیں ہیں زہر آلود
کہ خود سانسوں سے اپنی منہ چرانا پڑ گیا ہے