ہم کسی سایۂ دیوار میں آ بیٹھے ہیں

ہم کسی سایۂ دیوار میں آ بیٹھے ہیں
یا کہیں شام کے آثار میں آ بیٹھے ہیں


ہم کہ جز اپنے سوا اوروں سے واقف ہی نہیں
خود سے اکتائے تو دو چار میں آ بیٹھے ہیں


ہم کو بھاتی نہ تھی خوشبوئے چمن تو اٹھ کر
گھر کے گلدان کی مہکار میں آ بیٹھے ہیں


یہ عجب لوگ ہیں جینے کی تمنا لے کر
صبح ہوتے ہی صف دار میں آ بیٹھے ہیں


چھوڑ کر اپنے ٹھکانوں کو چمن میں یہ پرند
جانے کیوں وادیٔ پر خار میں آ بیٹھے ہیں


تو نہ ہو تو کوئی تجھ سا ہی نظر آئے شہابؔ
ہم جہاں حسرت دیدار میں آ بیٹھے ہیں