قلم بھی روشنائی دے رہا ہے

قلم بھی روشنائی دے رہا ہے
مجھے اپنی کمائی دے رہا ہے


میں دریا دے رہا ہوں کشتیوں کو
وہ مجھ کو نا خدائی دے رہا ہے


کوئی خاموش سا طوفاں ہوا کا
پرندوں کو سنائی دے رہا ہے


مری نظروں سے اوجھل ہے مگر وہ
جدھر دیکھوں دکھائی دے رہا ہے


شہابؔ اڑ کر چراغوں تک تو پہنچو
اگر کچھ کچھ سجھائی دے رہا ہے