Musavvir Sabzwari

مصور سبزواری

ممتاز جدید شاعر

Prominent modernist ghazal poet

مصور سبزواری کی غزل

    اسی نے ہجرتیں کچھ اور بھی بتائی تھیں

    اسی نے ہجرتیں کچھ اور بھی بتائی تھیں وہ شخص جس کے لیے کشتیاں جلائی تھیں ملا تھا کیا تمہیں بولو عظیم فنکارو مرے قلم نے تو گم نامیاں کمائی تھیں ابھی تو ہاتھ میں ہی سنگ پارے تھے لیکن سکوت آب پہ کتنی خراشیں آئی تھیں اڑا کے برگ خزاں دیدہ کی طرح اک روز اسی نے پوچھا تھا پھر آندھیاں کب ...

    مزید پڑھیے

    کئی زمانوں کے دریائے نیل چھوڑ گیا

    کئی زمانوں کے دریائے نیل چھوڑ گیا وہ وقت تھا جو مجھے لاکھوں میل چھوڑ گیا نہ بھیگے ہونٹ بھی کم ظرف دشت و دریا کے مرا حسین لہو کی سبیل چھوڑ گیا سب ایک سے تھے طلوع و غروب جاں اس کے جدائی میں بھی وہ نقش جمیل چھوڑ گیا تھے اس کے ساتھ زوال سفر کے سب منظر وہ دکھتے دل کے بہت سنگ میل چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    تنہا شجر کے درد کا احساس دے گیا

    تنہا شجر کے درد کا احساس دے گیا اک شخص مجھ کو جسم کا بن باس دے گیا لب ہائے نیلگوں پہ ہیں اس کی امانتیں جاتے لبوں کا جوہر الماس دے گیا جس میں کبھی بھی عکس کی کرچیں نہیں رہیں ٹوٹا ہوا وہ شیشۂ احساس دے گیا اب تک ہے میرے ہاتھوں میں خوشبو رچی ہوئی مصلوب ہو کے پھول بہت باس دے گیا اک ...

    مزید پڑھیے

    کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے

    کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے ندی میں چپکے سے اک چیخ ڈوب جاتی ہے دکھائی دیتی ہیں لاشیں ہی لاشیں آنگن میں کہاں سے خودکشی کر کے یہ دھوپ آتی ہے وہ شے جو بیٹھتی ہے چھپ کے ننگے پیڑوں میں گزرتے وقت بہت تالیاں بجاتی ہے پیوں شراب میں دشمن کے کاسۂ سر میں یہ بزدل آرزو کیسی ہنسی اڑاتی ...

    مزید پڑھیے

    جسم اپنا ہے کوئی اور نہ سایہ اپنا

    جسم اپنا ہے کوئی اور نہ سایہ اپنا جانے اس زیست سے ہے کون سا رشتہ اپنا تو نے کس موڑ پہ چھوڑا تھا مجھے عمر رواں تک رہا ہوں کئی صدیوں سے میں رستہ اپنا سنگ‌ انداز ہوا شہر ستم پیشہ تمام دل لیے بیٹھا ہے شیشے کا گھروندا اپنا ہم رہے بھی تو بدلتے ہوئے موسم کی طرح تیری آنکھوں میں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی آنچ میں سندرتا کا بھی دھن جلتا ہے

    عشق کی آنچ میں سندرتا کا بھی دھن جلتا ہے پروانے کی چتا پر شمع کا جوبن جلتا ہے اگنی بان ہیں تیری نظریں آئینہ مت دیکھ تیرے شیش محل کا اک اک درپن جلتا ہے رنگ روپ کی لو بھی نظر اس بھید کو کیا جانے روپ آیا ہے گلشن پر یا گلشن جلتا ہے جب جب سلگے کوئی موہن یاد تو برسوں تک مٹی کا ٹیلہ ...

    مزید پڑھیے

    ہماری تحریریں وارداتیں بہت زمانے کے بعد ہوں گی

    ہماری تحریریں وارداتیں بہت زمانے کے بعد ہوں گی رواں یہ بے حس اداس نہریں ہمارے جانے کے بعد ہوں گی کھنچی ہوئی ہیں افق سے دل تک علامت وصل کی لکیریں مگر یہ زندہ کئی قبیلوں کا خوں بہانے کے بعد ہوں گی طلب کے موسم گنوائے میں نے کمال غم سے دھواں دھواں تم شکایتیں یہ کڑے محاذوں سے لوٹ آنے ...

    مزید پڑھیے

    خوش فہمیوں کے کھیل کی اب کیا سبیل ہے

    خوش فہمیوں کے کھیل کی اب کیا سبیل ہے کاغذ کی ایک ناؤ ہے اور خشک جھیل ہے سر پر اٹھائے دھوپ کو سورج کی طرح چل منزل کہاں یہ سلسلۂ سنگ میل ہے لاشوں کے ڈھیر میں ابھی زندہ تو ہوں مگر میرے بھی سر پہ اڑتی ہوئی ایک چیل ہے سایہ بھی بند مٹھی میں رکھتا ہے بھینچ کر اونچا سا یہ درخت نہایت بخیل ...

    مزید پڑھیے

    یوں چپ ہے شہر جیسے کہ کچھ بھی ہوا نہ ہو

    یوں چپ ہے شہر جیسے کہ کچھ بھی ہوا نہ ہو شاید اب اس کے بعد کوئی حادثہ نہ ہو کانپا ہے برگ برگ سا جو بے سبب ابھی یہ جسم آندھیوں کا کوئی راستہ نہ ہو میں تھک چکا ہوں دشت مسافت کی دھوپ میں کوئی سراب راہ مری دیکھتا نہ ہو طغیان بے وفائی میں ڈوبا رہوں میں کاش میرے نصیب میں تجھے اب دیکھنا ...

    مزید پڑھیے

    بدن کے دیوار و در میں اک شے سی مر گئی ہے

    بدن کے دیوار و در میں اک شے سی مر گئی ہے عجیب خوشبو اداسیوں کی بکھر گئی ہے جگاؤ مت رستے خوابوں کی رت جگی تھکن کو کہ دھوپ دالان سے کبھی کی اتر گئی ہے فصیل سر کو بچائے رکھتا ہے وہ ابھی تک زمیں کی پستی تو ریشے ریشے میں بھر گئی ہے نہ ٹوٹ کر اتنا ہم کو چاہو کہ رو پڑیں ہم دبی دبائی سی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5