کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے

کنار آب ہوا جب بھی سنسناتی ہے
ندی میں چپکے سے اک چیخ ڈوب جاتی ہے


دکھائی دیتی ہیں لاشیں ہی لاشیں آنگن میں
کہاں سے خودکشی کر کے یہ دھوپ آتی ہے


وہ شے جو بیٹھتی ہے چھپ کے ننگے پیڑوں میں
گزرتے وقت بہت تالیاں بجاتی ہے


پیوں شراب میں دشمن کے کاسۂ سر میں
یہ بزدل آرزو کیسی ہنسی اڑاتی ہے


مصورؔ اس کو بتاتے ہیں زانیہ یہ لوگ
کنویں میں اپنی جو سب نیکیاں گراتی ہے